وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق بجلی کی اووربلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ترجمان نے بتایاکہ ایک ماہ کے دوران 256 کنکشنز میں اووربلنگ کا انکشاف ہوا، ملوث عناصر کے خلاف 23 انکوائریاں اور 5 مقدمات درج کیے گئے۔ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ گھروں، سرکاری دفاتر میں اوور بلنگ کی مد میں اربوں روپے بجلی بلوں میں وصول کیے گئے اور ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں 92 کروڑ 69 لاکھ یونٹس کی اووربلنگ کی گئی۔ترجمان ایف آئی اے کے مطابق اووربلنگ سے عوام اور دیگر سرکاری اداروں کو 34 ارب 29 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔اس حوالے سے ڈی جی ایف آئی اے نے ہدایت کی کہ اووربلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے اور ملزمان کی گرفتاری کیلئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ اگست میں نگران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان بھر میں بجلی کے بلوں میں اضافے پر عوام کی جانب سے بھرپوراحتجاج کیا گیا، اگرچہ حکومت نے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ کنزیومر پرائس انڈیکس اور حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی بنیاد پر ہوا ہے، لیکن اصل وجہ کچھ اور ہی نکلی۔لیکن اصل میں ایسا کچھ نہ تھا بلکہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے ہی سب کچھ کیا تھا ۔اگر دیکھا جائے تو بجلی کی تقسیم کار کمپنیاںعوام کو زیادہ بل بھیج کر انھیں حکومت کے خلاف احتجاج پر اکسانے میں ملوث ہیں ۔گزشتہ چند ماہ میں جس طرح اووربیلنگ کی گئی ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔جبکہ صرف ایک ماہ کے دوران ملک بھر میں 92 کروڑ 69لاکھ یونٹس زیادہ بھیج کر عوام کی جیبوں سے 34ارب 29کروڑ روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے ۔ اس سے قبل لیسکو نے صارفین کو تین دن کی بجائے چالیس اور کسی کو چوالیس دن کے بھی بھی بھیجے تھے ،جنہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ لیسکو کا میٹرریڈنگ کا عملہ صرف اپنے دفاتر میں ہی بیٹھ کر یہ سارا کام کر رہا ہے ۔نہ تو وہ ریڈنگ لینے باہرنکلتا ہے نہ ہی میٹر کی تصاویر بل پر پرنٹ کی جاتی ہے بلکہ پرانی تصویر کو ایڈیڈٹ کر کے کام چلایا جا رہا ہے کیونکہ جس دن سے بل کا سائز کم ہوا ہے اس دن سے بل پر لکھی عبارت کو پڑھنے کے لیے بھی کسی آلہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔وہاں پر میٹر کی تصویر کیسے نظر آئے گی ۔لیسکو نے جب یہ حرکت کی تھی تب صرف نوٹس ہی لیا گیا تھا لیکن اگر نوٹس کے ساتھ ساتھ اس دھندے میں ملوث افسران او رملازمین کو سزائیں دی جاتیں تو یہ خرابی اسی وقت رک جانی تھی مگر بدقسمتی کے ساتھ سب نے مٹی پائو والا کام کیا تھا ۔اس لیے لیسکو سے آگے بڑھ دیگر کمپنیوں کو بھی یہ جرأت ہوئی تھی کہ انھوں نے عوام کو اربوں روپے کے بل بھیج دیئے ۔ابھی تک لیسکو نے خراب میٹر تبدیل نہیں کیے ۔دوسری جانب نیشنل الیکٹرک پاورریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے جاری تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں سال جولائی اور اگست میں ملک بھر میں لاکھوں صارفین ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ’غیر قانونی اور غیر قانونی طریقوں‘ کی وجہ سے زائد بلنگ کا شکار ہوئے۔14 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کس طرح ڈسکوز بلنگ کے غلط کاموں میں ملوث تھے، جن میں سازوسامان کے مسائل، فضول چارجز اور بلنگ کی مدت میں تبدیلیاں شامل ہیں۔انکوائری رپورٹ میں چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں ایک کروڑ سے زائد صارفین کو بل جاری کیے گئے جو عام طور پر کیے جانے والے 30 دن سے زائد کا احاطہ کرتے ہیں۔بریک ڈاؤن سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے 5 ملین سے زیادہ صارفین کو 31 یا 32 دنوں کے لیے اور 2 ملین سے زیادہ صارفین کو 33 دنوں کے لیے بل دیا گیا تھا۔ تاہم، 450000 سے زیادہ صارفین کو 40 دن یا اس سے زائد کیلئے بل دیا گیا جس سے ان کے بلوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔بجلی کا بل ہمیشہ یونٹ کے حساب سے آتا ہے جبکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے اس کے سلیب بنا رکھے ہیں ۔جیسے ہی ایک سلیب سے یونٹ زیادہ ہوتے ہیں تو فورا دوسرے سلیب والا ریٹ شروع ہو جا تا ہے ۔ 100 سے 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو محفوظ زمرے میں رکھا گیا ہے جبکہ 100 یونٹ سے کم استعمال کرنے والے صارفین کو ’لائف لائن‘ کیٹیگری میں رکھا گیا ہے۔بلنگ کا دورانیہ 30 دن سے زائد ہونے کی وجہ سے لاکھوں صارفین (جن میں صرف ملتان کے 6 لاکھ 47 ہزار 155 صارفین بھی شامل ہیں) اپنے بجلی کے بلوں پر ملنے والی سبسڈی سے محروم ہوگئے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں لاکھوں میٹرز اب استعمال کے قابل نہیں ہیں اور انہیں تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔بہت سے میٹر ریڈرز نے سرکاری طور پر جاری کردہ ہینڈ ہیلڈ یونٹس کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے فون پر کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے ریڈنگ کی تصاویر لی۔اس کی وجہ سے ناقص یا غلط ریڈنگ ہوئی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس دھندے میں ملوث افسران کو فی الفور سزا دیکر عوام کو ریلیف فراہم کرے ۔