عہد حاضر کے مفاسد میں آئمہ و خطبا اور موذنین و خدام کی ناقدری اور اْن پر بے جا طعن و تشنیع ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے‘ مسجد کمیٹیاں رعونت زدہ سرمایہ داروں اور نخوت آمیز تقویٰ داروں کی آماجگاہ اور مسجد کا عملہ ہر وقت ان کے براہِ راست نشانے پر رہتا ہے۔امتدادِ زمانہ کے سبب اس شعبے کی اہمیت اور وقعت میں کمی واقع ہوئی ہے‘ جبکہ امام کی عزت و عظمت مسلم سوسائٹی کا خاصہ رہی۔گزشتہ صدی کے آخری عشروں تک تو صورتحال بہت بہتر تھی‘ مسجد ‘ ہماری سوسائٹی کا نیو کلس اور امام و خطیب کو معاشرے میں اپنائیت اور محبت میسر تھی۔مساجد کے ساتھ عملہ مساجد کی ضروریات کو نبھانا ایک خوش گوار فریضہ سمجھا جاتا تھا‘ مساجد میں باصلاحیت اور پیشہ وارانہ استعداد و صلاحیت سے مالا مال افراد کا تقرّر اور پھر ان کو اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق ان کی ضروریات زندگی کا خیال اور اس کی بہم رسانی کو یقینی بنانا‘ جس سے وہ اپنی منصبی ذمہ داریوں کی بجا آوری کا اہتمام بسہولت ممکن بنا سکے ہے۔ان کے مشاہرے اور اعزازیے کو محض کسی اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہیں‘ بلکہ ایک ایسی شخصیت کی خدمت کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو سوسائٹی میں ایک اہم دینی ذمہ داری کو نبھانے میں ہمہ وقت سرگرم رہتا ہے‘ موسم کی شدت‘ حالات کی نامساعدت‘ طبیعت کی خرابی اس کے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں کبھی حائل نہ ہوئی‘ ان کا یہ جذبہ دراصل اشاعت و دین اور اس کے ترویجِ دین کے رہینِِ منت ہے‘ ہماری سوسائٹی میں 90فیصد سے زیادہ مساجد کا انتظام و انصرام پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد ہے۔محلے اور مقامی آبادی کے صاحب خیر‘ ایسی ذمہ داریوں کو خیر و برکت کا ذریعہ جانتے ہوئے‘ مساجد کی آباد کاری کا بھر پور اہتمام کرتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں وقف پراپرپی آرڈیننس کے تحت 1960ء میں اوقاف کا محکمہ قائم ہوا‘ تو تاریخی اور دینی حوالے سے اہمیت کی حامل مساجد بھی محکمہ اوقاف کی تحویل میں آئیں‘ جیسے تاریخی بادشاہی مسجد‘ مسجد وزیر خان‘ مسلم مسجد‘ مرکزی جامع مسجد راولپنڈی وغیرہ اسی طرح بعض مساجد مزارات سے متصل ہونے کی بنا بھی اوقاف کے کنٹرول میں آئیں، جیسے جامع مسجد حضرت داتا گنج بخش‘ مسجد دربار حضرت میاں میر‘ مسجد دربار حضرت شاہ رکن عالم اوقاف کے پلیٹ فارم پر‘ خطے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مربوط اور منظم عملہ مسجد Mosque" "Estableshment معرض عمل میں آئی، جس کے باقاعدہ قواعد مرتب ہوئے‘ یوں آئمہ و خطبا اوقاف پنجاب ایک بہترین تنظیم کے ساتھ منظم و متعارف ہوئے۔اس آرگنائزیشن کے ساتھ اپنے اپنے عہد کے جید اور معتبر دینی شخصیات اور علماء منسلک رہے‘ جو اس ادارے کے اعزاز و وقار میں اضافے کا باعث بنے۔ یہ ادارہ بین المسالک رواداری کے فروغ اور بین المذاہب مکالمہ کا امین اور روادارانہ فلاحی معاشرے کے حوالے سے کلیدی کردار کا حامل ہوا۔اس کے محراب و منبر ہمیشہ امن‘ محبت‘ انسان دوستی‘ اخوت اور بھائی چارے کے نقیب بنے اور اتحاد بین المسلمین‘ متحدہ علماء بورڈ پنجاب قرآن بورڈ اور پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز جیسے وقیع فورمز اس کے علمی اور دینی اثاثے کا سرنامہ ثابت ہوئے۔ اوقاف گورنمنٹ کا واحد محکمہ ہے‘ جس کا بجٹ اوقاف کے دستیاب وسائل سے ہی ترتیب پاتا ہے۔اس کے مالی وسائل میں مزارات پر رکھے ہوئے کیش بکسز‘ وقف پراپرٹی‘ کمرشل پلازے‘ زرعی زمینیں اور مختلف نوع کے ٹھیکہ جات شامل ہیں۔اوقاف کے مذکورہ وسائل محدود جبکہ اس کے مالی بوجھ میں بتدریج اضافے کے سبب‘ اس کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا تھا‘ کوویڈ کے گزشتہ سالوں میں مزارات کی بندش اور مختلف ٹھیکہ جات میں تعطل نے ان مالی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔چنانچہ اس سلسلے میں درد دل رکھنے والے اصحابِ بست و کشاد جن میں ابتداً حافظ عمار یاسر صاحب کے ساتھ تقریباً دو ماہ قبل علماء اوقاف کا ایک اجلاس ان کے آفس میں ہوا‘ جس میں بنیادی بات آئمہ و خطبا اوقاف کی آپ گریڈیشن تھی‘ لیکن اس سے بھی اہم۔ مالی وسائل کی دستیابی کا معاملہ تھا‘ جس کے لئے ایک تجویز تھی کہ عملہ مساجد پر مشتمل ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی امور کو اٹیچ ڈیپارٹمنٹ یا سپیشل انسٹی ٹیوٹ کا درجہ دے کر آئمہ و خطبا کے لئے سرکاری بجٹ کی فراہمی کا اہتمام ہو جائے تاکہ ان علماء و خطبا کا مستقبل محفوظ اور مابعد ان کی پنشنز وغیرہ میں بھی کوئی دقت نہ ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ گورنمنٹ مستقل مالی گرانٹ فراہم کر کے ان کے جملہ امور کو مستحسن انداز میں آگے بڑھائے۔ گزشتہ ہفتے جناب چودھری پرویز الٰہی اپنے ایک اہم پراجیکٹ ’’پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز‘‘ کی آبیاری کے لئے اپرمال پر واقع اس عظیم اور وقیع عمارت میں تشریف فرما ہوئے‘ جس سے ادارے کی فعالیت کا سفر مزید تیز ہو گا، اس کی عمارت بڑے دینی ولولے اور جذبے کے ساتھ تشکیل پائی‘ مگر بعد میں مختلف تجربات کے لئے اس کو تختہ مشق بنانے کی کوشش ہوتی رہی۔کبھی اورنج لائن کے دفاتر‘ کبھی منی سیکرٹریٹ اور کبھی دیگر امور، بحمدہ تعالیٰ گزشتہ کٹھن حالات میں اس عمارت کو اس کے بنیادی مقاصد کے لئے محفوظ و مامون بنانے کی سعی بروئے کار رہی اور ایک مرتبہ پھر چودھری پرویز الٰہی صاحب نے اس کو ’’سنٹر آف ایکسیلسن‘‘ بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔یہیں پر انہوں نے آئمہ و خطباء اوقاف کے ان محکمانہ مسائل کا حل نکالتے ہوئے ان کے ایک دیرینہ مطالبے کو پذیرائی عطا کرتے ہوئے ان کے سات مختلف مدارج‘ جو کہ مؤذن سے لے کر صوبائی خطیب تک محیط ہیں۔ کی اَپ گریڈیشن کا اعلان کر دیا‘ جس کے مطابق موذن جو کہ سکیل چار اور پانچ کا حامل ہے کو اَپ گریڈ کر کے سکیل سات جبکہ نائب خطیب و مدرس سکیل 7,6کو سکیل 12‘ سکیل نمبر 9کے خطیب امام کو سکیل 14سینئر خطیب سکیل نمبر 12کو سکیل 16‘ ضلعی خطیب سکیل 16 کو 17‘ زونل خطیب سکیل 17کو سکیل 18اور صوبائی خطیب سکیل 18کو سکیل 19اور اسی طرح ان کے افسر مجاز ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور کو سکیل 20سے سکیل 21میں اَپ گریڈ کرنے کا اعلان کر دیا اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس اَپ گریڈیشن کے نتیجہ میں اضافی اخراجات کا بوجھ پنجاب گورنمنٹ کے ذمہ ڈالا۔ جس کی تعمیل میں صوبائی بجٹ سے سالانہ تیس کروڑ کی گرانٹ کے ساتھ ، ہر سال اس میں پانچ کروڑ کے اضافے کا اہتمام والتزام بھی کرنے کا اعلان کیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب سمجھتے ہیں کہ اوقاف کی مالی حالت، اس گراں قدر مالی ذمہ داری کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ بہرحال جناب چوہدری پرویز الٰہی کی یہ اناؤنسمنٹ ایک ایسے طبقے کی فارغ البالی کا باعث ہوگی جن کی طرف ماضی میں ریاست یا سوسائٹی کی طرف سے توجہ نہیں دی گئی۔ حکومتی اور سرکاری سطح پر یہ اہتمام ایک لائقِ تحسین امر ہے۔یقینا چوہدری صاحب نے اس پسماندہ طبقے کے ساتھ خیر خواہی کا اہتمام کرکے ، اپنے لیے مستقل دعائوں کا اہتمام کر لیا ہے۔ گذشتہ روز داتا دربار کے خطیب مفتی محمدرمضان سیالوی نے اس پرعمدہ بات کی کہ ہم عملہ مسجد کو لوگ دْعا کرنے کاکہتے ہیں اور ہم دْعا کرتے بھی رہتے ہیں ، اس لیے کہ ہماری منصبی ذمہ داری ہے لیکن آج تک کسی نے یہ اہتمام نہیں کیا ،جس کے سبب ہمارے دلوں سے کسی کے لیے خود بخود دْعا نکلے۔ موجودہ حکومت کا یہ ایک ایسا اہم کام ہے جس سے یہ مسکین اور دین کے خدام اپنے محسنوں کو ہمہ وقت دعائوں میں یاد رکھیں گے۔