دنیا کے مختلف ممالک میں صحت عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جہاں دنیا کا ایک چوتھائی حصہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے تاکہ ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچا جا سکے۔ کاربن کا اخراج دراصل گاڑیوں کے دھواں سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہاہے، آج ہر تیسرے فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں 1.5 لاکھ تک اضافہ ہو چکا ہے جبکہ 2030 تک ان گاڑیوں کی تعداد 18 لاکھ تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجوہات متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکجز ہیں جس کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل با آسانی مل جاتی ہے۔ ایکسائز دفتر کے مطابق اسلام آباد میں ہر روز 50 سے 60 موٹرسائیکل، 90 سے 100 گاڑیاں، 4 سے 5 کمرشل گاڑیاں جبکہ 10 سے 15 سرکاری گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں جو ٹریفک میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ جبکہ تقریباً ہر مہینے 6000 گاڑیاں ہر مہینے رجسٹر ہوتی ہیں اس کے علاوہ ٹیکس آفس میں 200 گاڑیاں کچھ وجوہات کی بنا پر موجود رہتی ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کل 18352500 گاڑیاں موجود ہیں،جن میں دو سے تین پہیوں والی گاڑیوں کی تعداد 13538200 ہے جبکہ چار پہیوں والی گاڑیوں کی تعداد 2835400 ہے۔ اگرچہ موٹرسائیکل ایک عام آدمی کی سواری کی سواری ہے لیکن یہ ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ہے اور سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں اولین کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سڑکوں پر ہوتی اموات کی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت ہے۔ اگر ان بڑھتی ہوئی موٹر سائیکل و گاڑیوں کی تعداد کو کم نا کیا گیا تو خطرہ ہے کے پاکستان میں حادثات کی شرح میں اور تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والا پیٹرول، ڈیزل و گیس جل کر کیمائی مادوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جلے ہوئے انجن سے خارج ہونے والی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ جو بلاواسطہ طور پر انسانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ جس سے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جیسے کہ دمہ، دل کی بیماریاں اور سانس و پھیپھڑوں کے مسائل سر فہرست ہیں۔ پچھلے دو تین سال سے پاکستان کے بڑے شہروں میں گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے اسموگ کا تناسب بڑھ چکا ہے جس سے سانس لینے میں دقت درپیش ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پنجاب کے دیگر شہروں میں اسموگ کی وجہ سے معاشی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنا پڑتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود بھی پاکستان میں کسی نے بھی ماحولیاتی آلودگی کو اہم سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس کے علاوہ ماحول کو آلودہ کرنے والے عوامل میں صنعتوں و کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ بھی ہو سکتی ہے لیکن پاکستان میں کچھ مسائل کی وجہ سے کارخانوں میں سرگرمیاں اکثر زوال کا شکار رہتی ہیں۔ ان کارخانوں سے پیدا ہونے والے باقیات و فضلہ کو بہتر جگہ ٹھکانے لگانے کے انتظامات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ فصل پکنے کے بعد بچنے والے باقیات کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے زرعی پیداواری میں اضافہ ہونے کے امکانات ممکن ہیں لیکن اکثر کسان فصلوں سے بچنے والے باقیات کو جلا دیتے ہیں جس سے بھی ماحول کو متاثر ہوتا ہے۔ جیسے کے جرمنی سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظم منظم اور بہترین ہے جہاں لوگ اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اگر پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کیا جائے تو اس سے سڑکوں پر بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی۔اگر چار سے پانچ لوگ ایک ہی جگہ جانے کے لئے الگ الگ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں،تو اس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی جبکہ اس ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کیلئے آسان حل یہی ہے کے چار سے پانچ افراد ایک ہی گاڑی میں سفر کریں جس سے نہ صرف زہریلے مادوں کے اخراج میں کمی ہو گی بلکہ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں کمی ہو گی، جس سے کم رش کی بدولت منزل پر بآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، 1965 کا موٹر وہیکل آرڈیننس بہت پرانا ہو چکا ہے۔ جس میں ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے اداروں کو ایسا قانون پاس کروانا ہوگا جہاں تمام صوبوں میں کاربن کے اخراج کے قانون کو لاگو کرنے کا عندیہ دیا جائے تا کہ پاکستان کو آلودگی سے صاف و شفاف ملک بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں میں جدید انجن کی اپ گریڈیشن پر پالیسی متعارف کروانی ہوگی جس سے عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑ سکے گا۔ اس کے علاوہ وہ گاڑیاں جو 10 سے 15 سال کے زائد عرصہ کی ہو چکی ہیں ان کے لائسنس کا منسوخ کرنا چاہیے کیونکہ اکثر پرانی گاڑیاں زیادہ زہریلا دھواں پھیلاتی ہیں۔ماحولیاتی آلودگی میں بڑھتے ہوئے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت کو چاہیے کے وہ ماحول کو آلودہ کرنے والی گاڑیوں سمیت دیگر عوامل پر بھاری ٹیکس عائد کرے جس سے پاکستان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے گا،اس کے علاوہ ماحول میں آلودگی کی شدت میں کمی واقع ہو سکے گی۔ کیونکہ یہ لوگ ماحول کو آلودہ بنا رہے ہیں اور اس کا ہرجانہ وصول کرنا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو بھی ہوتے ہیں۔ زہریلے مادوں کے اخراج کے خاتمے کیلئے ہمیں حکومت کے ساتھ مل کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسلیں ماحولیاتی آلودگی سے بچ سکیں، اگر ہم نے بروقت فطرت کا تحفظ نا کیا تو فطری آفات کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے اور اس کی موجود مثال ہمارے سامنے ہے۔