بھوٹان اور مالدیپ سمیت جنوبی ایشیاکے کسی بھی ملک کے تعلقات اس خطے کے سب سے بڑے ملک بھارت کے ساتھ اطمینان بخش نہیں رہے ہیں۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک کے بجائے یہ ممالک اکثر چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے گرم جوش رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے، جس کیلئے بھارتی سفارت کاروں کی نیند حرام ہونی چاہئے تھی۔ اب کچھ عرصے سے بھوٹان اور مالدیپ بھی بھارت کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ حلف برداری کے ایک دن بعد ہی مالدیپ کے نئے صدر محمد معیزہ نے بھارت کو باضابطہ طور پر ملک سے فوجیں ہٹانے کی درخواست کی تھی۔ چین کے سرکاری دورے سے واپسی پر مالدیپ کے صدر نے واضح طور پر کہا کہ مالدیپ کسی خاص ملک کے پچھواڑے میں نہیں ہے اور کسی ایک ملک پر انحصار کم کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔ بھارت میں اس بات پر بھی خاصا تذبذب اور ناراضگی ہے کہ مالدیپ کے نئے صدر نے اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز ترکیہ سے کیا۔ ورنہ ابھی تک سبھی سربراہان مملکت حلف برداری کے بعد بھارت کا رخ کرتے تھے۔ ترکیہ کے بعد وہ چین چلے گئے۔ اسی کے ساتھ مالدیپ کے تین نائب وزراء نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق تضحیک آمیز الفاظ سوشل میڈیا پر استعمال کیا۔ قصہ یہ ہے کہ نئے سال کے اختتام پر مودی بحیرہ عرب کے خلیج عدن میں واقع جزائر لکشدیپ آئے تھے اور وہاں انہوں نے سمندر میں اسکوبا ڈائیونگ کرکے اس کے فوٹو اور ویڈیو سوشل میڈیا پر ریلیز کرکے سیاحوں کو لکشدیپ کی طرف آنے کی دعوت دی۔ ان کے حامیوں نے کہا کہ اب سیاحوں کو مالدیپ کے بجاے لکشدیپ آنا چائے۔ اسکے جواب میں مالدیپ کے کئی اراکین، اور اراکین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم مودی اور بھارتیوں کے رویے پر تنقید کی۔ مالدیپ سری لنکا اور بھارت کے جنوب مغرب میں بحر ہند میں واقع ہے جبکہ لکشدیپ کوچی سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مالدیپ اور لکشدیپ کے درمیان سات سو کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹس سے معلوم ہوتا تھا ، جیسے یہ جزائر ایک دوسرے کے قریب ہیں اور لکشدیپ کے ذریعے اب مالدیپ کو مسابقت کا سامنا کرکے سبق سکھایا جائے گا۔ ان دونوں جزائر کی ایک ہی مشترکہ بات ہے ، کہ دونوں مسلم اکثریتی جزائر ہیں۔ ورنہ یہ ایک دوسرے سے کوسوں دور ہے، اور دونوں کے ساحل بھی مختلف ہیں۔ مالدیپ خط استو ا کے بالکل قریب ہے اس لئے پورا سال ایک ہی درجہ حرارت اور دھوپ ہوتی ہے۔ بھارت میں جب سے ہندو قوم پرست حکومت برسراقتدار آئی ہے، تب سے لکشدیب کے باسی بھی اضطراب میں ہیں۔ کشمیریوں کی طرح ان کا بھی قصور بس اتنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بھارت کے موجودہ حکمرانوں کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح کھٹکتے ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں جزائر لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل نے ترقی کے نام پر کئی ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہے، جن سے ان جزائر کے آبادی کے تناسب کو بگاڑنے اور مقامی آبادی کو اپنے ہی علاقے میں بیگانہ کرنے کی سازش کی بو آتی ہے۔ 36 جزائر پر مشتمل لکشدیب میں2011کی مردم شماری کے مطابق 64,429نفوس رہتے ہیں اور ان میں 96فیصد مسلمان ہے۔ یہ جزائر زبان، ثقافت اور رہن سہن کے اعتبار سے کیرالا صوبہ کا حصہ لگتے ہیں۔ 1947 تک برطانوی عملدداری میں مدراس پریزیڈنسی ان کو کنٹرول کرتی تھی۔یہ علاقہ ٹیپو سلطان کی مملکت میں شامل تھا اور ان کی موت کے بعد برطانیہ کے قبضے میں آگیا تھا۔ آزادی کے بعداس خدشہ کے پیش نظر کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ کہیں پاکستان میں شامل نہ ہوجائے، ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے بحریہ کو فی الفور ان جزائر کا کنٹرول حاصل کرنے کا حکم دے دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ چند روز بعد پاکستانی بحریہ اس علاقے میں پہنچی تھی، مگر تب تک بھارتی افواج نے اسکا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ ان کی ثقافت ،مذہبی و نسلی شناخت و ان کی زمین و جائیدادوں کی حفاظت کیلئے جزائر کے باشندوں کو شیڈیولڈ ٹرائب یعنی درج فہرست قبائلیوں کے زمرے میں رکھا گیا۔ 1971تک پاکستانی بحری جہازوں کو مشرقی بازو (بنگلہ دیش) کی طرف سفر کرتے ہوئے ان ہی جزائر کے پاس سے ہوکر گذرنا پڑتا تھا۔ چونکہ یہ جزائر بھارت کے ساحلوں کی طرف آتے ہوئے عرب تاجروں کی راہ میں پڑتے تھے، اسلئے لگتا ہے کہ یہ ان کا پڑاو ہوتا تھا۔ 36جزائر میں بس 10میں ہی آبادی ہے۔ پانچ جزائر تو سیاحوں کیلئے بند ہیں ، کیونکہ ان میں بحریہ کے اڈے ہیں۔ ایک غیر آباد جزیرے بانگارام میں غیر ملکی سیاحوں کیلئے ریزورٹس کا انتظام ہے۔ یہ واحد جزیرہ ہے جہان اب تک شراب نوشی کی اجازت تھی۔بھارت کے ساحلی علاقوں میں یہ واحد جگہ ہے ، جہاں تہہ در تہہ رنگا رنگ مونگے یعنی مرجان کی چٹانوں کے سلسلہ موجود ہیں۔ سمندر کا پانی اتنا شفاف کہ مٹر کا دانہ بھی گر جائے تو تہہ میں نظر آجائیگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جارحانہ سیاحتی حکمت عملی کی وجہ سے ماحولیات کو انتہائی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل جو گجرات میں مودی کے وزارت اعلیٰ کے دوران وزیر داخلہ رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ ان جزائر میں پچھلے کئی دہائیوں سے ترقی نہیں ہوئی ہے۔ اسلئے سیاحوں کو کھنچنے کیلئے سبھی جزائر میں شراب نوشی کی اجازت ہوگی۔ اب ان کو کوئی پوچھے ان کے اپنے صوبہ گجرات اور صوبہ بہار میں شراب نوشی کی کیوں ممانعت ہے؟ ترقی اگر شراب سے ہی ہوتی ہے، تو گجرات اور بہار میں بھی شراب بندی ختم کرنی چاہئے۔ اسکے علاوہ گائے کے گوشت کی خرید و فروخت اور کہیں لانے لے جانے پر پابندی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت ترین سزائیں، دو سے زائد بچوں کے والدین کے پنچایت الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی، غنڈہ ایکٹ کا نفا ذ اور ترقی کے نام پر کسی کی بھی زمین حاصل کر لینے سے متعلق اعلانات شامل ہیں۔درج فہرست قبائلی علاقہ کا درجہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک باہر کے لوگ ان جزائر پر زمینوں کی خرید و فرخت نہیں کر سکتے تھے۔ لکشدیپ کے رکن پارلیمان محمد فیصل کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون میں مقامی نمائندوں کوکسی بھی معاملے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہو گا بلکہ سارے اختیارات صرف ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جائیںگے۔ کسی بھی شخص کو اس کے خلاف عدالتی سماعت کے بغیر ایک برس تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ ایسی جگہ جہاں خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق جرائم برائے نام ہیں،جیل خالی ہے، وہاں ایسے سخت قانون کی کیا ضرورت ہے؟لکشدیپ کو سیاحتی نقشہ پر لانے اور اسکو مالدیپ کا برابر کھڑا کرنے سے قبل حکومت کو ان جزائر کے باسیوں کے ساتھ احسن سلوک کرکے انکو انسان مان کر ان کی نفسیات اور رسم و رواج کی پاسداری کرنی چاہئے۔ اگر ان جزائر کے باسیوں کو ہی اپنے گھر سے بے دخل کردیا، تو اس سیاحت اور تعمیر و ترقی کا کیا فائدہ ہے۔