لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم نے منشیات کے ملزمان کی گرفتاری کے نئے اصول وضع کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کی ویڈیو بنانے کے انتظامات کے لیے حکومت پنجاب کو چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 8ملین سے تجاوز کر چکی ہے جس میں 78فیصد مرد اور 22فیصد خواتین شامل ہیں۔ بدقسمتی سے منشیات استعمال کرنے والوں میں بچوں اور خواتین کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے جس کی ایک وجہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے رجحان میں اضافہ بتایا جاتا ہے۔ حکومت کہنے کو تو منشیات کے انسداد کے لیے متعدد ادارے قائم کر رکھے ہیں مگر بظاہر تمام اقدامات ناکام دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ انسداد منشیات کے اداروں کے اہلکاروں کا خود اس دھندے میں ملوث ہونا بتایا جاتا ہے۔حال ہی میں جاری ایک رپورٹ میں پنجاب پولیس کے تین سو سے زیادہ افسران و اہلکار منشیات فروشی میں ملوث بتائے گئے۔ یہ حکومتی اداروں کی نا اہلی نہیں تو اور کیا ہے کہ بڑے شہروں میں ایلیٹ تعلیمی اداروں میں منشایت آسانی سے دستیاب ہو رہی ہیں۔ منشیات کے عادی افراد کے ذریعے منشیات فراہم کرنے والوں تک پہنچنا مشکل نہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو معزز جج کا ملزمان کی گرفتاری کی ویڈیو بنانے کا حکم درست محسوس ہوتا ہے۔ بہتر ہو گا حکومت پولیس کو منشیات سپلائی کرنے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرے ۔