کورونا کا زور بڑھا ہے تو کوچ نقارے کا شور بھی پہلے سے سوا ہے۔لیکن یہ زندگی ہے۔ ادھر جنازوں کے جلوس ہیں تو ادھر شنہائیاں بجاتی باراتیں۔بزم زندگی سے کچھ لوگ اٹھ جاتے ہیں تو زندگی کی کچھ نئی کونپلیں بھی کھلتی ہیں۔ یعنی اگر ادھر چلی ہے تو ادھر ہما ہمی۔کل ملا کے جائے عبرت سرائے فانی ہے۔ زمین کے بالائی کمرے میں قرآن کے مطابق سات آسمان ہیں(سائنس نے ابھی تک چھ دریافت کئے ہیں)اور اب آٹھواں فلک خوف کا تن گیا ہے۔ ہر ایک کو دھڑکا لگا ہے کہ نہ جانے کوہ مزا سے اب کس کے نام کی صدا لگے گی لیکن خوف سبھی کو نہیں ہے‘ کچھ بے خوف ہیں اور بے خوفی کی حدوں سے گزر کر ایسی لوٹ مچا رہے ہیں کہ چشم فلک نے کبھی دیکھی نہ گوش عصر نے کبھی سنی۔ خبر تو آ گئی‘وزیر اعظم نے مہنگائی میں اضافے کا حکم دے دیا۔آپ نے نہیں پڑھی؟حیرت ہے۔سبھی اخبارات نے چھاپا تھا کہ وزیر اعظم نے رمضان المبارک کے دوران قیمتیں کم کرنے اور ریلیف دینے کی ہدایت جاری کر دی۔ اب اس ہدایت نامے کے الفاظ کا ترجمہ کر لیں اور رمضان میں کمرکو تحلیل کر دینے والی مہنگائی کے لئے تیار ہو جائیں۔ ٭٭٭٭ ہر خبر میں خوف ہے‘ ہر اطلاع میں دھمکی لیکن کچھ مزے دار خبریں بھی آ ہی جاتی ہیں۔مثال کے طور پر یہ خبر دیکھیے کہ حکومت نے وزارت اطلاعات کو مزید ایک ارب کی رقم دی ہے کہ حکومتی کارناموں کی تشہیر کی جائے۔ یہ سوال الگ کہ پہلے ہی ہر اشتہار‘ہر تختی ‘ ہرسنگ بنیاد پر ’’حکومت‘‘ کی فوٹو چھپی ہوتی ہے اور یہ بھی مت پوچھیے کہ اڈھائی تین سال پہلے کس نے کہا تھا کہ بجٹ کی رقم کیا تمہارے باپ کی ہے کہ اپنی فوٹو چھپواتے ہو‘بس‘اس بات پر سوچ سوچ کر لطف اٹھائیے کہ وزارت اطلاعات کن حکومتی کارناموں کی تشہیر کرے گی؟ مثلاً یہ کہ ایک سال کے دوران بجلی 70فیصد مہنگی کر دی(اور ابھی اتنی ہی اور مہنگی ہونی ہے) یا یہ کہ حج جو 2018ء میں دو لاکھ کا تھا‘ اب سات لاکھ سے زیادہ میں ہو سکے گا‘ یا پھر یہ کہ غیر ملکی سرمایہ کاری مزید 30فیصد (لگ بھگ) کم ہو گئی اور برآمدات کا حجم مزید 2.3فیصد سکڑ گیا۔ یا یہ کہ بجلی دوگنی مہنگی کر کے بھی سرکلر ڈیٹ کم ہونے کے بجائے الٹا چار گنا کر دیا؟یا یہ کہ بے روزگاروں کی دس دس لاکھ کی دس نئی پلٹین کھڑی کر دی یا یہ کہ لاکھوں مکان مسمار کر کے ان کے مکینوں کو لامکان میں دھکیل دیا یا یہ کہ خط غربت سے نیچے آدھے ملک کو لڑھکا دیا۔ایسے سینکڑوں کارنامے ہیں اور وزارت اطلاعات حیران ہے کہ ایک ارب کی ’’حقیر‘‘ سی رقم سے وہ کس کس کارنامے کی تشہیر کرے! ٭٭٭٭ دوسری مزیدار خبر میڈیا کا قبلہ سیدھا رکھنے والے ادارے کے ہدایت نامے سے متعلق ہے۔بانداز درخواست یہ حکم میڈیا ہائوسز کو جاری کیا گیا ہے کہ مہنگائی کے مسئلے پر مثبت رپورٹنگ کریں اور عوام کو بتائیں کہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں پاکستان سے بھی زیادہ مہنگائی ہے۔ میڈیا کن ملکوں کا نام لے۔ یہ نہیں بتایا۔خود اسے بھی نہیں معلوم کر کن ملکوں میں پاکستان سے زیادہ مہنگائی ہے۔ شاید براعظم انٹارکٹکا میں؟بہرحال ہدایت نامے کے اس حصے پر عمل کرنا میڈیا کے بس کی بات نہیں۔ ٭٭٭٭٭ مثبت رپورٹنگ والی ہدایت پر عمل البتہ پہلے ہی ہو رہا ہے۔ مزید عملدرآمد کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خبریں ’’رمی ماڈل‘‘ کی جائیں۔ مثلاً مزے کی خبریںایک دو کچھ اس طرح کی ہو سکتی ہیں کہ مہنگائی کی شرح کم ہو کر 15.35فیصد ہو گئی‘ رمضان میں مزید کم ہو کر 18.17فیصد ہو سکتی ہے۔ نیپرا نے بجلی مزید ڈیڑھ روپے یونٹ سستی کر دی۔عوام پر سے اڑھائی ارب روپے کا بوجھ کم ہو گیا وغیرہ۔ ٭٭٭٭ خبر مثبت رپورٹنگ کے اپنے فائدے ہیں۔مثبت رپورٹنگ کا پہلا حکم نامہ اڑھائی برس ہوئے آیا تھا۔ساتھ ہی فائدہ بھی بتایا گیا تھا‘یہ کہ بس آپ چھ ماہ مثبت رپورٹ کریں‘پھر دیکھیں ملک کیسے ترقی کرتا ہے۔ اور سچ ہے بھئی‘ ملک نے کیسی برق رفتار ترقی کی۔ترقی کا سیلاب گلی کوچوں کو ندی نالوں میں بدلتا گھروں میں گھسا تو پرنالے کے راستے نکلا۔ناصر کاظمی مرحوم زندہ ہوتے تو اپنے ایک مشہور شعر میں ذرا سی تبدیلی کر کے اسے یوں پڑھتے: ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر ترقی بال کھولے سو رہی ہے بلکہ زیادہ حسب حال تو کچھ ایسے ہوتا کہ: ہمارے گھر کی انگنائی میں ناصر ترقی بال کھولے ناچتی ہے ٭٭٭٭ وفاقی کابینہ میں توسیع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فیصل جاوید‘علی ظفر اور انوارالحق کاکڑ کو وزیر بنایا جائے گا جبکہ تین سابق وزیر شبلی فراز‘ فیصل واوڈا اور عثمان ڈار پھر سے حاضر سروس ہو جائیں گے۔ پہلے کتنے وزیر ہیں؟یہ گنتی تو خود عمران کو بھی یاد نہیں ہو گی۔چلئے اور کچھ یہ سہی‘پاکستان کا یہ ’’عالمی اعزاز‘‘ کیا کم ہے کہ ارض کی سب سے بڑی کابینہ اس کے پاس ہے۔آپ کوئی اعتراض مت کیجیے گا ورنہ یہ سنائونی سننے کو ملے گی کہ این آر او ہرگز نہیں دونگا۔