دنیا کے سارے پیمانے اس کشش کو ناپنے سے عاجز ہیں جو کشش مدینہ اور مدینے والےؐ کے لیے مسلمانوں کے دلوں میں ہے۔ مدینہ آ کر پیاسے کو تسکین تو ملتی ہے مگر ہر زیارت کے بعدتشنگی کم ہونے کی بجائے اور بڑھتی ہے اور شوقِ آرزو کم ہونے کے بجائے فزوں تر ہو جاتا ہے۔ رحمت دو عالم کی وسعتوں کا ذرا اندازہ کیجیے کہ اس کی محبت کا دیا ہر دلِ مسلم میں روشن ہے۔ شاہ ہو یا گدا، امیر ہو یا غریب، حاکم ہو یا محکوم، پرہیز گار ہو یا گنہگار، عاصی ہو یا متقی، عالم ہو یا عامی اور عربی ہو یا عجمی سب کا یہی ایمان ہے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ آپؐ نے دنیا میں آ کر انسانیت کو زندگی بسر کرنے کا جو درس دیا اسے وہ بھلا چکی تھی۔ جو پیغام آدم علیہ السلام لائے تھے، جس پیغام کی نوحؑ نے تصدیق اور تائید کی، پھر اسی پیغام کی ابراہیم علیہ اسلام نے تجدید کی پھر موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام نے بھی ربِ ذوالجلال کے اسی سرمدی پیغام کا بول بالا کرنا چاہا۔ وحدانیت و ربوبیت کے کلمے کی سربلندی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کو مصائب و مشکلات کے پہاڑوں سے ٹکرانا پڑا۔ پھر آخر میں نبی آخر الزمانؐ تشریف لائے جنہیں ان کی اپنی بستی والوں نے ایذائیں پہنچائیں، جنہیں طائف کی گلیوں میں سنگ دل اور متکبر روساء کی طرف سے پتھروں کی برسات کا سامنا کرنا پڑا اور پھر بھی رحمت دو عالم نے ان کے لیے عذاب کی نہیں ایمان اور رحمت کی دعا کی۔ محسن انسانیت کا ظہور ایسے حالات میں ہوا جب کہ پوری انسانیت اپنے خالق کی تعلیمات کو بھلا کر تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کہیں دورِ وحشت چل رہا تھا اور کہیں شرک و بت پرستی کی لعنتوں نے انسانیت کو پستی و پسماندگی سے دوچار کر رکھا تھا۔ مصر اور ہندوستان نینوا، یونان اور چین میں تہذیبیں اپنی شمعیں گلی کر چکی تھیں۔ اس وقت کا ماحول ایک ایسے آہنی قفس میں بند تھا جس میں امید کا کوئی جگنو نہ چمکتا تھا ہر طرف گھپ اندھیرا تھا، اللہ نے اپنے حبیب کریمؐ کی آمد سے پہلے ہی کئی بار یہ خوش خبری عالمِ انسانیت کو سنا دی تھی کہ ہم چرواہوں کو جہاں بانی کا فریضہ سونپیں گے، ہم صحرائوں کو سرسبز کریں گے اور ایک ان پڑھ قوم میں ایک ایسا نبی بھیجیں گے جس کی زبان پر کبھی دل آزاری کا بول نہ آئے گا، وہ کبھی کسی کو طعنہ نہ دے گا، وہ کبھی کسی کی پگڑی نہ اچھالے گا، کبھی کسی کی عزت کے درپے نہ ہو گا۔ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم وہ انقلاب لائے جس کی ساری انسانیت منتظر تھی۔ جناب مظفر وارثی نے اس ساری صورتِ حال کو کس محبت و مہارت کے ساتھ شعر کے پیرائے میں ڈھالا ہے ؎ شعور لایا کتاب لایا، وہ حشر تک کا نصاب لایا دیا بھی کامل نظام اس نے، اور آپ ہی انقلاب لایا وہ علم کی اور عمل کی حد بھی، ازل بھی اس کا اور ابد بھی وہ ہر زمانے کا راہبر ہے، میرا پیمبرﷺ عظیم تر ہے آپؐ کی اس جہانِ فانی میں آمد سے صرف دو ماہ پہلے آپ کے والد حضرت عبداللہ بیمار ہو کر انتقال کر گئے تھے اور یوں آپ یتیم پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے نومولود کے دادا عبدالمطلب کو پیغام بھیجا تو وہ فرحاں و شاداں تشریف لائے اور آپ کو خانہ کعبہ لے جا کر اللہ سے دعا کی اور آپ کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھا۔اس سے پہلے یہ نام عرب میں معروف نہ تھا۔ ہوازن قبیلے کی بنی سعد شاخ فصاحت و بلاغت میں بہت مشہور تھی۔ حلیمہ سعدیہ کا تعلق اسی قبیلے سے تھا جس کے حصے میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعت کی سعادت آئی۔ اس گنہگار کو بنی سعد کے علاقے کی زیارت بھی نصیب ہوئی اور ہم نے وہ جگہ بھی دیکھی جہاں کبھی دیارِ حلیمہ سعدیہ تھے اور جہاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چار پانچ برس کی عمر تک مقیم رہے۔ آپؐ بیان فرمایا کرتے کہ ’’اَنا افصح العرب‘‘ میں عربوں میں سب سے زیادہ فصیح ہوں کیونکہ میری پرورش بنی سعد میں ہوئی ہے۔ مکۃ المکرمہ سے جنوب کی طرف طائف، کہ جو اپنی معتدل آب و ہوا کی بناء پر مشہور و معروف ہے، کا فاصلہ ایک سو کلومیٹر ہے۔ جنوب کی طرف مزید 80کلومیٹر کے فاصلے پر بنی سعد کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے اور اسی علاقے میں ہی حلیمہ سعدیہ کا مسکن تھا۔ حجاج کرام اور عمرہ زائرین اب طائف بھی جا سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر موقع ملے تو ضرور جانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولادت سعادت سے قبل ہی یتیم ہو گئے تھے اور پھر صرف چھ برس کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں اور یوں جناب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یتیم کے بعد یسیر بھی ہو گئے۔ یہ مشیت ایزدی تھی یا حکمت ربانی تھی کہ ایک یتیم و یسیر بچے کو حق کی علمبرداری اور باطل کی بیخ کنی کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ آپؐ کے اخلاق کریمانہ پر ہی ریاست مدینہ کی بنیاد اٹھائی گئی۔ اس ریاست کو صرف چند برس کے قلیل عرصے میں قیصر و کسریٰ کی صدیوں پرانی بادشاہتوں پر غلبہ حاصل ہو گیا۔ ایک بار کسریٰ یعنی فارس کا ایک سفیر مدینہ منورہ آیا۔ وہ امیر المومنین عمرؓ بن خطاب کو تلاش کرتا کرتا صحرا میں آ نکلا۔ آپ صحرا کی پتھریلی ریت پر آرام فرما رہے تھے۔ غلام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اس ایرانی ایلچی نے کہا کہ آپ انصاف کے ساتھ اپنی رعایا کی نگہبانی کرتے ہیں اسی لیے صحرا میں بغیر کسی پاسبان کے بھی آپ کو کوئی ڈر خطرہ نہیں، ہمارے حکمران ظلم و جبر سے کام لیتے ہیں اس لیے انہیں بلند و بالا فصیلوں والے محلات میں بھی چین کی نیند نہیں آتی… یہ ہے ریاست مدینہ جس کی بنیاد جناب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھی۔ اس کے لیے لوگوں کو تعلیم دی، ان کی تربیت کی، قرآنِ کی تعلیمات پر خود عمل کیا اور اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنی عملی مثال پیش فرمائی۔ اللہ کے راستے میں ظلم و جبر کے خاتمے کے لیے جہاد کیا۔ ریاست مدینہ میں مسلمانوں کے ہی نہیں غیر مسلموں کے حقوق بھی محفوظ تھے اور ان کے جان و مال کی ذمہ داری اسلامی ریاست پر تھی۔ آج دنیا ایک طرف ستاروں پر کمندیں ڈال چکی ہے، نئی دنیائیں دریافت کر چکی ہے، نئی نئی سائنسی ایجادات کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے مگر پرانے دورِ جاہلیت کی طرح آج کے اس جدید دور میں بھی انسانیت ظلم و ستم، حق تلفی و نا انصافی اور کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں کی طرح اپنے حقوق کی پامالی کا سامنا کر رہی ہیں۔ آج بھی دنیا پر وہی دور جاہلیت کا ’’قانون‘‘ لاگو ہو گیا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آقائے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ با سعادت کا جشن آپ کو مبارک ہو۔ مسجدِ نبویؐ کی زیارت قبول ہو، روضۂ رسول پر آپ کا سلام منظور ہو اور محمد مصطفی کی غلامی کے لیے آپ کا شوقِ شہادت فزوں تر ہو مگر ذرا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچو کہ جس کام کے لیے جناب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ قائم کی تھی اس کے لیے ہم کوئی جدوجہد کیوں نہیں کر رہے۔ آج پاکستان میں ریاست مدینہ کے قیام کی نوید سنائی گئی ہے مگر اس کے لیے جس تحمل و برداشت، عفو و درگزر اور دلوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے وہ کلچر کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ اس کوتاہی میں یہ عاصی بھی پیش پیش ہے مگر دل میں ہر لحظہ زیارتِ مدینہ کی خواہش فروزاں بھی رہتی ہے اور فزوں تر بھی۔ اسی لیے جب زیارتِ مدینہ نصیب ہوتی ہے تو وقتِ رخصت لبوں پر یہی تمنا مچل رہی ہوتی ہے۔ ع مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے