خط میں بسی خوشبو‘ پیغامات کے امین لیٹر باکسوں اور ڈاک بابو کے سائیکل کی گھنٹی کے ساتھ بچپن‘ لڑکپن اور جوانی کا ایک رومانس وابستہ ہے جس کی بنا پر میں خط‘ ڈاک خانوں‘ ڈاک بابوئوں اور لیٹر باکسوں کی گم ہوتی لالی کی شان میںرطب اللسان رہا کرتا ہوں لیکن شائد محکمہ ڈاک والے اپنے بنیادی کام یعنی ڈاک کی ترسیل سے توبہ تائب ہوچکے ہیں۔ مستقبل قریب میں بنک اور انشورنس کمپنی کے طور پر تو ڈاک خانوں کا وجود شاید قائم رہے‘ ڈاک کی منزلِ مقصود تک ترسیل کے حوالے سے ان کا اعتبار تیزی سے ختم ہوتاجا رہا ہے۔ نجی کورئیر کمپنیوں کی نسبت قدرے سستا ہونے اور وہ جو شروع میں ایک رومانس کا ذکر کیا‘ اس کی بنا پر میں محکمہ ڈاک کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں مگر اب لگتا ہے کہ ڈاک خانے والے میرے ساتھ یہ ربط ضبط مزید قائم رکھنے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔غالباً ان کی یہ خواہش ہے کہ مجھ جیسے پرانے گاہکوں سے اب جان ہی چھڑ الی جائے تو بہتر ہے۔ چند آب بیتیاں سنئے۔ چار پانچ ماہ پہلے کی بات ہے میری بیٹی زہرا‘ جو اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں پڑھتی ہے‘ اس نے اپنے کچھ کاغذات مجھے بھیجنے تھے جو یہاں سے ویری فائی کروا کے مجھے اس کو لوٹانے تھے۔ میں نے اسے کہا بیٹا آپ کی یونیورسٹی میں ڈاک خانہ ہے‘ وہاں سے مجھے بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک بھجوادو کاغذات۔ ز ہرا ڈاک خانہ گئی تو کائونٹر پر جو خاتون بکنگ کلرک بیٹھی تھیں‘ انہوں نے کہا کہ آپ ان کو رجسٹری کیوں کروا رہی ہیں۔ ڈاک خانے کے ذریعے تو ان کو ملتان پہنچنے میں چار پانچ دن لگ جائیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ گم ہی ہوجائیں۔ آپ کورئیر سروس سے کیوں نہیں بھیجتیں؟ زہرایہ سن کر پریشان ہوگئی‘ اس نے کہا کہ کورئیر سروس کے لئے مجھے یونیورسٹی سے باہر جانا پڑے گا۔ خاتون کلرک نے کہا آپ فکر نہ کریں‘ وہ یہیں سے آکر لے جائیں گے۔ پھر خاتون نے ایک نجی کورئیر کمپنی کے نمائندہ کو فون کیا‘ وہ آکر ہاسٹل سے پیکٹ لے گیا۔ اب بتائیے جس گھر کے افراد خود کہیں کہ ہمارے گھر والے قابلِ اعتبار نہیں‘ اس گھر کا کیا مستقبل ہوسکتا ہے ؟ مارچ کے مہینہ میں مجھے کچھ کاغذات زینب اور زہرا کو بھیجنے تھے۔ زہرا کا بتاچکا ہوں‘ زینب لاہور کی ایک یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ میں نے دو لفافے تیار کئے اور بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک روانہ کردئیے۔ اگلا ایک ہفتہ روزانہ بچوں سے پوچھتا رہا کہ کاغذات ملے؟ مگر کوئی خیر خبر نہیں۔ بارہ چودہ روز کے بعد لاہور کا لفافہ تو واپس موصول ہوگیا جس پر لکھا تھا کہ ہاسٹل کا چوکیدار ڈاک وصول کرنے سے انکاری ہے جب کہ اسلام آباد والے رجسٹرڈ لفافے کا آج تک کوئی پتہ نہیں۔ نہ ڈلیور ہوا‘ نہ واپس ملا‘ حالاں کہ زہرا کی یونیورسٹی میں تو ڈاک خانہ بھی ہے ۔وہی ڈاک خانہ جو نجی کورئیر کمپنیوں کا ایجنٹ بنا ہوا ہے۔ اب تیسرا وقوعہ سنئے۔ انتیسویں روزے کو انہی صفحات پر میرا ایک کالم چھپا تھا ’’ لوگ کہتے تھے عید کارڈ اسے…‘‘ اس میں عید کارڈوں کے حوالے سے کچھ یادیں تازہ کی گئی تھیں اور محکمہ ڈاک ملتان کے اس اقدام کی تحسین کی گئی تھی کہ عید کارڈ کی روایت کو زندہ کرنے کے لئے مفت عید کارڈوں کے سٹال ڈاک خانوں میں قائم کئے گئے ہیں۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ میں نے یہ مفت والے پانچ عید کارڈ لئے اور پانچ لفافے خرید کر ان کو پوسٹ کردیا۔ صرف ایک کارڈ جو میں نے اپنے ہی گھر کے پتہ پر‘ اپنی اہلیہ کے نام لکھا تھا‘ وہ ملا ہے‘ باقی چار کا رڈ ابھی تک ڈلیور نہیں ہوسکے۔ یہ کارڈ شاکر حسین شاکر (ملتان) ‘مرزا یاسین بیگ (نارروال) ‘سید طارق مشہدی (گجرات ضلع مظفرگڑھ)اور علی حسین بلوچ (جھنگ) کو لکھے اور جی پی او سے پوسٹ کئے گئے تھے۔ ہفتہ دس دن گزرنے کے بعد بھی جب کسی طرف سے رسید نہ ملی تو میں نے ان چاروں احباب سے پوچھا لیکن کسی کو بھی کارڈ نہیں ملے۔ ان دنوں عام ڈاک کا لفافہ بیس روپے کا ہے۔ جب میں نے خط لکھنا شروع کیا تو ڈاک کا لفافہ بیس پیسے کا ہوتا تھا۔ سکول کا طالب علم تھا اور اپنے ماموں زاد سعید اقبال جو جہانیاں میں رہتا ہے‘ کوخط لکھا کرتا تھا۔ ڈاک اور خط سے وابستگی کے یہ ابتدائی دن تھے۔ باواصفرا روڈ پر بلو کی دکان سے لفافہ خریدتا۔ وہ بیس پیسے والا لفافہ پچیس پیسے میں دیا کرتا تھا ۔ بعد کو جب میری رسائی رشید آباد والے ڈاک خانے تک ہوگئی تو پتہ چلا کہ بیس پیسے کا لفافہ بیس پیسے میں ہی ملتا ہے۔خیر! خط لکھ کر لفافہ بند کر کے ٹاہلی سے ٹنگے بوسیدہ سے لیٹر بکس میں پوسٹ کر کے آتا۔ تین چار روز بعد سعید کا جواب ملتا۔ ہم ایک دوسرے کو تین تین چار چار صفحات پر مشتمل خط لکھا کرتے تھے۔ پھر قلمی دوستی کا شوق ہوا۔ درجن بھر خط روزانہ موصول کرنا اور ان کا جواب لکھنا مدتوں معمول رہا۔ ادب پڑھنا شروع کیا تو ادب سے جڑے مشاہیر کے نام خط لکھے۔غرض ایک طویل وابستگی ہے ڈاک اور خط کے ساتھ…یہ یادیں مجبور کرتی ہیں کہ جس قدر بھی ہوسکے خود کو ڈاک خانے کے ساتھ جوڑ کے رکھا جائے مگر ہمارا ممدوح اب کچھ اچھا سلوک روا نہیں رکھتا۔ محکمہ ڈاک کے پاس وسیع ترین نیٹ ورک ہے۔ ملک کی چھوٹی سی چھوٹی اور دو رافتادہ جگہوں پر ڈاک خانے اور عملہ موجود ہیں۔ جہاں کوئی نجی کورئیر کمپنی سروس دینے کا تصور بھی نہیں کرسکتی وہاں محکمہ ڈاک کا سیٹ اپ موجود ہے۔ ضرورت صرف اس محکمے کو قدرے جدید خطوط پر استوار کر کے خدمات کو ٹھیک کرنے کی ہے۔ آپ ڈاک خانے کا بنک بھی چلائیں‘ انشورنس بھی کریں لیکن جو اس محکمہ کا اصل اور بنیادی کام ہے یعنی ڈاک کی ترسیل‘خدارا‘ وہ متاثر نہیں ہونا چاہئے۔