کرنل (ر) قلب عباس کو جب بھارتی قید سے رہائی ملی تو وہ دوبارہ یونٹ میں چلے گئے اور ریٹائرمنٹ تک خود کو پاک افواج کیلئے وقف رکھا۔ کسی نے یاد داشتیں قلمبند کرنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے المیہ مشرقی پاکستان کو ایک نوجوان آفیسر کی حیثیت سے منفرد انداز میں دیکھا تھا۔ کبھی کبھی قابل اعتبار دوستوں کی محفل میں عبرتناک قصے سنادیا کرتے تھے۔ لیکن ضبط تحریر میں لانا ان کے نزدیک عسکری روایات کے منافی تھا۔ میرے اصرار پر گلوگیر آواز میں کہا ''کیا اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاؤں' لکھنے سے کیا فرق پڑے گا' ہم سبق حاصل کرنے والی قوم نہیں ہیں۔'' یہ تو نصف صدی پہلے کا قصہ ہے۔ جو انتہائی مشفق اور محبت کرنے والے دوست بریگیڈیئر (ر) صولت رضا نے کرنل صاحب کو یاد کرتے ہوئے لکھا تھا۔ کل رات جب میں نے بھائیوں کی طرح محبت کرنے والے جناب نجیب ہارون کو ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سنا جو سیاسی ڈھلوان پر لڑکھڑاتے ہوئے وزیراعظم کو مشورہ دے رہے تھے کہ پارٹی کو بچانے کیلئے وہ اپنی وزارت عظمیٰ کی قربانی دیدیں۔ تو مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ نجیب بھائی کے برداشت کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دل کی بات زبان پر آگئی ہے۔ یہ وہی نجیب ہارون ہیں، جنہوں نے عمران خان کا اس وقت ہاتھ تھاما تھا، جب ان کی جماعت ایک تانگے کی جماعت تھی۔ یہ تو وہی نجیب ہارون ہیں جنہوں نے سائے کی طرح عمران سے دوستی کا حق نبھایا۔ میں تو ان 30 سالوں کا گواہ ہوں۔ عمران خان کراچی آتے تو ایئرپورٹ پر نجیب ہارون کا ڈرائیور ان کا منتظر ہوتا۔ پھر انہیں کس سے ملنا ہے۔ کہاں جانا ہے۔ غرض کراچی کا پورا شیڈول اور پھر کراچی سے روانگی تک نجیب بھائی میزبانی کے وہ تمام لوازمات ادا کرتے تاکہ مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اس وقت یہ دونوں دوست کیا کیا خواب دیکھا کرتے تھے۔ جی ہاں تبدیلی۔ تبدیلی کا یہ نعرہ اس وقت ان کے ذہن میں آیا۔ پھر یہ کارواں بننا شروع ہوا۔ ڈاکٹر عارف علوی جیسے مخلص ساتھی کے کولمبس بھی نجیب ہارون تھے۔ نجیب ہارون ایک انتہائی زیرک اور سوجھ بوجھ کے انسان ہیں۔ ایماندار اور محبت کرنے والے اور اپ رائٹ۔ اس وقت میں نے کبھی نجیب ہارون سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ بنیادی طور پر ایک انجینئر ہیں' ایک کنسٹرکشن کمپنی کے مالک۔ انہیں کیا سوجھی کہ وہ سیاست کے میدان میں کودے۔ اس لئے کہ مجھے معلوم تھا کہ اسکول کے دور سے ہی نمایاں نظر آنا ان کی خواہش تھی۔ پھر اس خواہش نے اس وقت ایک توانا انگڑائی لی، جب وہ این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے پریذیڈنٹ بن گئے۔ گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے کیلئے انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ پی آئی اے میں ملازمت بھی کی۔ ایک خوددار اور کمیٹڈ انسان ہیں۔ دوستوں کے دوست۔ مجھے معلوم ہے کہ انہوں نے PALWAL کے نام سے سعودی ایمبیسی کے قریب جو گھر لیا، اس کا صرف اس وقت مقصد ہی یہ تھا کہ عمران خان جب بھی کراچی آئیں، تو اس میں ان کا آرام دہ قیام اور پارٹی ورکرز اور رہنمائوں کے ساتھ ملاقات وغیرہ کا باآسانی اہتمام ہوسکے۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ عمران خان اور نجیب ہارون میں بڑی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ بڑے خواب تھے۔ حالات کو بدل دینے کے ارادے تھے۔ یہ دونوں بڑے انسپائرنگ گفتگو کیا کرتے تھے۔ وہ تصورات میں ایک ایک تابندہ مستقبل اور کروڑوں کے ہجوم کو ایک قوم بنانے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ یہ پی ٹی آئی کی ابتدا تھی۔ یہ عمران کی سیاسی اٹھان کی ابتدا تھی۔ ایک نامور کرکٹر' ایک نامور سیاستدان بننے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اسے نجیب ہارون جیسا دوست میسر آگیا تھا ،جس میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت موجود تھی۔ پھر یہ کارواں آگے چلا ،تو اس میں بڑے قیمتی لوگ شامل ہوگئے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ عمران کی پارٹی کا نام تحریک انصاف جناب حسن نثار نے رکھا تھا۔ پورے پاکستان میں بڑے چیدہ چیدہ لوگ عمران خان کو امید کا نشان سمجھ رہے تھے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس تابناک خوابوں کے لانچنگ پیڈ نجیب ہارون جیسے لوگ تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ سب کچھ بکھر گیا۔ نجیب ہارون کو اندازہ ہوگیا تھا کہ عمران خان جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کررہے ہیں۔ ایک ایسا ایم این اے جو پوری اسمبلی میں سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے جو نہ رکن اسمبلی کی حیثیت سے تنخواہ لیتا ہے نہ ہوائی جہاز کے ٹکٹ، نہ ہی کبھی اپنے نام لاجز میں کمرہ بک کرایا۔ ایسا اپ رائٹ رکن اسمبلی جو آج تک عمران خان کے ساتھ کھڑا رہا۔ درمیان میں بددلی اتنی بڑھی تھی کہ رکن اسمبلی کی حیثیت سے استعفیٰ دیدیا، جسے اسپیکر نے منظور نہیں کیا۔ عمران خان نے بنی گالہ میں بلایا پوچھا یار نجیب تم نے استعفیٰ دیکر اچھا نہیں کیا۔ تمہیں کم از کم مجھ سے مشورہ کرلینا چاہئے تھا۔ نجیب ہارون نے اپنی مخصوص دھیمے لہجے میں خفیف مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ کہ مجھے جس سے مشورہ کرنا تھا، میں نے کرلیا تھا۔ درحقیقت نجیب ہارون بنی گالہ میں وزیراعظم کے پڑوسی بھی ہیں۔ انہوں نے عمران خان کی اقامت گاہ کے سامنے اپنا بہت ہی خوبصورت گھر بنایا۔ دونوں دوست آمنے سامنے رہتے ہیں' لیکن لہجے میں یہ شکوہ کیسا۔یہ عمران خان کے سوچنے کی بات ہے۔ ہمارے شعبے کے کئی اہم میڈیا پرسنز نے عمران خان کو قدم قدم پر بہت ہی قیمتی مشورے دیئے۔ ٹھیک ہے ہر کسی کی بات نہیں مانی جاسکتی۔ لیکن ہر بات میں اپنی بھی نہیں چلانی چاہئے۔ چواین لائی نے ایک بار کہا تھا کہ کسی بھی لیڈر کو ضد' انا اور تکبر کو اپنی شخصیت سے الگ کردینا چاہئے۔ کیونکہ یہ کمزوریاں اسے کوئی بروقت اور صحیح فیصلہ کرنے سے بھٹکا سکتی ہیں۔ پھر رچرڈ نکسن کی بات سنئے وہ اپنی بائیو گرافی میں لکھتے حیں۔ کسی بھی امریکی صدر کیلئے صرف ایک مرحلہ فیصلہ کن ہوتا ہے جب وہ وہائٹ ہاؤس میں پہنچتا ہے اس کیلئے اپنے مشیروں اور وزیروں کا انتخاب سب سے کڑا امتحان ہوتا ہے، جو اس کی کامیابی کی کلید ہوتے ہیں۔ ہمارے سسٹم میں اس حوالے سے یوں تو بہت سی مجبوریاں اور سقم ہیں۔ لیکن عمران خان سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ ان کے وزراء اور مشیر اتنے باصلاحیت اور دور اندیش ثابت نہیں ہوئے۔جب عمران خان برسر اقتدار آئے، تو اس وقت خود نجیب ہارون نے ایک ملاقات میں مجھے ان کے 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ ملازمتوں کے حوالے سے ایک جامع پروگرام کا نقشہ بیان کیا تھا، جو ان کے خیال میں باآسانی قابل عمل تھا۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ عمران نے اپنے ان لوگوں کو ڈراپ کردیا۔ اپنی الیون میں شامل نہیں کیا، جو ابتدا سے ان کے ہمسفر تھے۔ میکاولی نے کہا تھا کہ ہر حکمران طاقت کے نشے میں خوشامد پسند بن جاتا ہے اور اس کا یہ رجحان اسے غلط راستے پر لے جاتا ہے۔ آپ دنیا بھر کے حکمرانوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں ان کی ناکامیوں پر ان کے مشیروں کے غلط مشوروں کا ہاتھ نظر آئے گا۔ اب آپ اندازہ لگائیے۔ ذرا اپنے حالات پر نظر ڈالیں۔ 2018ء پہلے جب عمران خان کا سورج چمک رہا تھا۔ لوگ مختلف پارٹیوں سے ان کی پارٹی کی طرف آرہے تھے یا بھیجے جارہے تھے۔ آج وہ مشکل میں ہیں' تو وہی لوگ ان سے ہاتھ چھڑا رہے ہیں۔ کل نواز شریف کی پوزیشن کمزور تھی۔ آج ان کی ہوا چل رہی ہے۔ یہی لوگ اب ان کی پارٹی کے ٹکٹ کے متلاشی ہیں۔ اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے۔ (جاری ہے)