یہ اقتدار کے متلاشی ہیں۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ تمام لیڈران کرام یہ کہتے ہیں کہ فلور کراسنگ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ ایسے لوگوں کو اپنی پارٹی میں قبول نہیں کرنا چاہئے' لیکن ظلم یہ ہے کہ کل جب یہ لوگ عمران خان کی پارٹی میں شامل ہورہے تھے۔ تو خود عمران خان یہ کہہ رہے تھے کہ ان کا ضمیر جاگ گیا ہے۔ آج جب وہ ان کی پارٹی چھوڑ رہے ہیں تو عمران خان یہ کہتے نہیں تھک رہے کہ یہ لوٹے ہیں اور انہوں نے پارٹی سے غداری کی ہے۔ دیکھیں عمران خان کو اپنی تمامتر کرشماتی شخصیت کے باوجود پورے چار سال تک اپنے مخالفین کا یہ طعنہ سننا پڑا کہ وہ سلیکٹڈ ہیں۔ لیکن اب اگر ویسی ہی کسی کوشش کے نتیجے میں ان کے نیچے سے اقتدار کا قالین کھینچ لیا جاتا ہے تو یہ بھی کوئی احسن کام نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران سے پے در پے غلطیاں ہوئیں۔ وہ نہیں سمجھ سکے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری ان کی تمام کوششوں اور اچھے کاموں کو بھی ملیا میٹ کررہی ہے۔ ان کے فنانشن مینجرز تبدیل ہوتے رہے' لیکن عام لوگوں کی مایوسی اور پریشانی میں کوئی کمی نہیں آسکی۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہیلتھ کارڈ کتنی زبردست سکیم ہے۔ خیبرپختونخواہ اور پنجاب کے لوگوں تک یہ سہولت بہم پہنچائی گئی۔ لیکن بزدار اور محمود خان نے اس کی مارکیٹنگ نہیں کی۔ سب نشاندہی کرتے رہے کہ کہاں کہاں غلطیاں ہورہی ہیں اور کہاں کہاں آپ کے اقدامات درست ہیں۔ اس طرح کرونا کے حوالے سے عمران خان نے اچھی مینجمنٹ کی' لیکن اس میں ہونے والی اربوں روپے کی کرپشن نے ان کے اس پورے عمل کو داغدار کیا۔ عمران خان کا بنیادی نعرہ کرپشن کا خاتمہ تھا۔ لیکن تمام انڈیکیٹرز بتاتے ہیں کہ گزشتہ چار سال میں مہنگائی کی طرح کرپشن بھی بڑھی۔ عمران نیب کے کردار کے متعلق بھی کنفیوژڈ رہے' کبھی ان کی کارروائیوں کے سبب معیشت پر پڑنے والے اثرات تاجر برادری کے تحفظات تاثر یہ رہا کہ ہم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب کھسک رہے ہیں۔ آج کا منظر دیکھیں ہم ایک دوسرے سے شاکی ہی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو گالیاں دے رہی ہیں۔ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے آگئی ہیں۔ گو کہ یہ ایک خالصتاً آئینی عمل تھا۔ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی۔ یہ حکومت کا حق تھا کہ وہ اسے ناکام بنانے کیلئے بھاگ دوڑ کرے۔ اتحادیوں کو جوڑے رکھے اور اپنے روٹھوں ہوؤں کو منائے۔ لیکن وہ دوسرے راستے پر چل پڑی۔ اس نے سیاسی اکھاڑے میں رولز کو نظر اندا زکیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی اراکین اب دھمکیوں اور مارنے مرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن اس کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہی ہے۔ 27 مارچ کا عوامی جلسہ منعقد کرکے اور اس حوالے سے ان کے وزراء کی دھمکیوں نے آگ پر تیل کا کام کیا ہے۔ ریڈ لائن کراس ہورہی ہے۔ لہجوں کی تلخیاں خطرناک ہورہی ہیں۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ کسی تیسری قوت کو آگے آکر ایک ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے کہ وہ قوت جو دونوں فریقوں کو بٹھاکر گیم کے رولز کے مطابق آگے بڑھنے پر انہیں قائل کرے۔ اب یہ معاملہ سیاسی میدان سے نکل کر کورٹ روم تک پہنچ گیا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے کہ تو ہیئت مقتدرہ نے 12 سال میں عمران کو نہ صرف سپورٹ کیا بلکہ ان کی ہر مشکل وقت میں معاونت بھی کی۔ ان کو اچھے اور ان کے مزاج کے مطابق کھلاڑی بھی فراہم کئے۔ ان کے مطلب کی پچیں بنائی گئیں۔ ایسی وکٹ جو ان کے مخالفین کیلئے خاصا مشکل ثابت ہوئیں۔ کپتان کی اننگز میں ابتدا میں اس کی کارکردگی اچھی رہی۔ بڑے بڑے جلسے اور عام لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا مرحلہ کپتان نے بہت اچھی طرح پورا کیا۔ 2013ء میں عمران خان کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی' لیکن 2018ء میں اس نے وہ ٹارگٹ حاصل کرلیا اور وہ ایوان اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اپنے چار سالہ حکمرانی کے دور میں اس کی کارکردگی میں جابجا ایسے جھول آتے رہے کہ اسے اگر مقتدرہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو اس کا وکٹ پر رہنا مشکل تھا۔ لیکن امپائر نے لیگ بی فور کی تمام اپیلیں مسترد کردیں۔ اب نظریہ آتا ہے کہ ان تمام تجربات کے بعد سلیکٹرز اپنی ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ عمران خان کے سامنے اندیشے یا امکانات ہی نہیں بلکہ انہیں صاف نظر آرہا ہے کہ فیلڈرز نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور گیند ضرورت سے زیادہ اسپن ہورہی ہے۔ اس کا بظاہر یہی نتیجہ نکلنے والا ہے کہ یا تو یہ وکٹ کو جالگے گی یا کپتان کیچ تھما بیٹھیں گے۔ ایسے میں وہ اسپیکر کی مدد سے جو امپائر کا کلیدی کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں کم روشنی کی اپیل کرکے وقت کو ٹالنے کی کوشش کررہے ہیں' لیکن مخالف ٹیم کے تیور بتارہے ہیں کہ وہ بھی ریڈ لائن کراس کرسکتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ کوئی آئے اور دونوں فریقوں کو گتھم گتھا ہونے سے بچانے کے ساتھ اس عمل کو آئینی طریقے سے ادا کرنے پر مجبورکرے۔ جس کی طرف سپریم کورٹ نے واضح طور پر اشارہ کردیا ہے کہ جو کچھ آئینی میں لکھا ہے اس کے مطابق گیم کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ عمران خان کیلئے فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے۔ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ بقول نجیب ہارون وہ اپنی وزارت عظمیٰ کی قربانی دے کر فی الحال اپنی حکومت کے بقیہ وقت کیلئے اپنے کسی قابل بھروسہ شخص کو آگے بڑھائیں۔ اس طرح پی ٹی آئی کی حکومت شاید بچ جائے اور شطرنج کے مہرے اپنی اپنی جگہ چلے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی میں عمران کی شخصیت سب پر حاوی ہے' لیکن یہ ایسا ہی ہے کہ جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تو شاہد خاقان عباسی کو وزارت عظمیٰ سونپ دی گئی اور نواز شریف کی پارٹی نے 5 سال اقتدار انجوائے کیا۔ یہ فارمولا لگتا ہے کہ باقاعدہ چلایا گیا ہے۔ دوسری صورت میں عمران کی حکومت جاتی نظر آرہی ہے' کیونکہ آخری گیند تک لڑنے کا عزم اپنی جگہ لیکن آخری اوور میں 100 رنز کیسے بنیں گے۔ اسکور بورڈ تو یہی بتارہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی اس وضاحت کے بعد کہ جب تک جرم ثابت نہیں ہوجاتا کسی بھی ممبر کے خلاف ریفرنس نہیں بھیجا جاسکتا۔ آئین اس معاملے میں واضح ہے کہ منحرف ممبر ووٹ بھی ڈال سکتا ہے اور وہ ووٹ تسلیم بھی کیا جائے گا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر صدر مملکت وزیراعظم سے کہیں کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں تو یقینی طور پر وزیراعظم ایسا نہیں کرپائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ پورے وقار کے ساتھ یہ عمل مکمل کرائیں۔ حکومت جاتی ہے تو چلی جائے۔ ماضی میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ نجیب ہارون جیسے مخلص ساتھیوں کو اپنے قریب لائیں۔ مشاورت کے عمل کو بڑھائیں۔ پاکستانی سیاست میں بھرپور کردار ادا کریں۔ میرا تجزیہ ہے کہ وہ حزب اختلاف کی بینچوں پر اپنا موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے فیصلہ کیجئے۔ کرنل قلب عباس نے گلوگیر آواز میں کہا تھا ''کیا اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاؤں لکھنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ہم سبق حاصل کرنے والی قوم نہیں ہیں۔'' 50 برس پہلے اس مرنجان مرنج فوجی آفیسر نے درست ہی کہا تھا۔ ہم واقعی حالات و واقعات سے سبق سیکھنے والے نہیں ہیں اور یہ بھی کرنل قلب عباس نے درست کہا تھا ''کیا اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاؤں'' سچ بات یہ ہے کہ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو پھر ایک کالم نہیں کئی کتابیں لکھنی پڑیں گی۔ (ختم شد)