انسان پر ایک موسم آتا ہے جب آنکھوں میں قوس قزح اترتی ہے اور سارا وجود بہار ہو جاتا ہے۔ بے صدا لمحوں کی زنجیر الجھ نہ جائے اور وقت مہرباں ہو جائے تو یہی موسم گُل عمر بھر کے لیے آنگن میں ٹھہر جاتا ہے۔ایسے ہی موسموں کے دو تحفے میری یادوں کا حسن ہیں : پروین شاکر کی ’ خوشبو‘ اور امجد اسلام امجد کی ’ میرے بھی ہیں کچھ خواب‘۔ایک کسی نے مجھے دیا تھا ، ایک کسی کو میں نے دیا تھا۔ حسن اتفاق دیکھیے ، پیڑ کی آغوش میں رکھے گھونسلے کی طرح ، دونوں ہی میرے گھر کا حصہ ہیں۔ کتنے موسم بدلے ، کتنی بہاریں آئیں اور کتنی برساتیں برس کے بیت گئیں،گھر کی لائبریری کی کیسی کیسی چھانٹی کی ، کتابوں کا انبار تھا جو نکال دیا ، کچھ کسی ادارے کو دے دیں ، کچھ دوستوں میں بانٹ دیں ، کچھ ردی میں ڈال دیں لیکن پروین شاکر کی خوشبو اور امجد اسلام امجد کے یہ خواب آج بھی گھر میں، خوشبو کے چراغ جلائے رکھتے ہیں۔ پروین شاکر نے’ خوشبو‘ کو محبت کے روایتی تحفوں میں ایک اضافہ قرار دیا تھا اور امجد اسلام امجد نے ’خوابوں کے ساتھ ساتھ ‘ یہ عہد باندھا تھا کہ یہ سلسلہ اس وقت تک پھیلتا رہے گا جب تک لکھنے والی کی سانس سمٹ نہیں جاتی۔آج جب امجد اسلام امجد کی سانس سمٹ گئی ہے اور اس ز ینہ زینہ اترتے غم میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ: ستارے ٹوٹ کر جاتے کہاں ہیں؟ بظاہر ایسا لگتا ہے وہاں بستی کی ا س جانب کسی جنگل کی وسعت میں کسی پربت کے سینے میں امجد اسلام امجد سے میرا تعلق قریب چالیس سال پرانا ہے۔ ان چالیس سالوں میں مگر نہ کوئی رابطہ ہوا نہ کوئی ملاقات۔ یہ ایسا ہی تعلق تھا جیسے دور ساحلوں پر تیز ہوا کوئی امانت تھامے ہو یا جیسے شام ڈھلے پہاڑوں پر سائے ڈھل رہے ہوں۔ نہ ہوا اور سائے کو کچھ خبر ہوتی نہ ساحل اور پہاڑوں کو۔ ہاں مگر دیوار دل میں روزن بنتے جاتے ہیں۔ گائوں میں ، گھر میں ، ایک بلیک ایند وائٹ ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ رات آٹھ بجے ’ وارث‘ ڈرامہ لگتا تھا ۔ اس ڈرامے کے لیے غیر معمولی اہتمام ہوتا تھا ۔حقے ، موڑھے ، پیڑھیاں ، ہر چیز کی ترتیب لگ جایا کرتی تھی اور جب ڈرامہ شروع ہوتا تھا تو گویا وقت کی نبض رک جاتی تھی۔ یہی ڈرامہ امجد اسلام امجد سے پہلا تعارف تھا۔ یہ بھلے وقتوں کی بات ہے ، سب کچھ گلیمر نہیں ہوتاتھا۔ کہانی اور کردار پر بھی توجہ دی جاتی تھی۔ چودھری حشمت کا وہ کردار اور گائوں کی وہ تہذیب ، امجد اسلام امجد نے لکھنے کا حق ادا کر دیا تھا۔ ممکن نہیں کہ اس عشرے میں لڑکپن کی دہلیز پر قدم رکھنے والے کسی آدمی کو یہ ڈرامہ یاد نہ ہو۔ امجد اسلام امجد سے د وسرا تعارف اس وقت ہوا جب بارش ، پھول ، تتلی کے ساتھ پیار کے رنگ بھی شاموں میں گندھنے لگے۔ہوا کے لمس میں اک بے صدا نغمگی سی محسوس ہونے لگی، جب حیرت دل کی منڈیرپر چراغ کی طرح تھر تھرانے لگی، جب عروس جاں مہکنے لگی اور جب تاروں بھری راتوں میں اپنے نام کے تارے تلاش کرنے کا وقت آیا۔ تب ایک روز ایک تحفہ ملا۔یہ نظموں کی کتاب تھی۔ آسمان جیسا نیلا اس کا رنگ تھا ۔سرسری سی نظر ڈالی تو محسوس ہوا ذکر تو اپنا ہی ہے لکھا کسی اور نے ہے۔نظمیں نہ تھیں، یوں سمجھیے بادل کی دہلیز پر تارے اترے ہوئے تھے۔ہر تارا اپنے مدار کا ہجرتی معلوم ہو رہا تھا۔ اس کتاب کا نام تھا: میرے بھی ہیں کچھ خو اب۔ تب سے اب تک یہ کتاب اک خواب کی صورت میرے ہمراہ ہے۔ کتنی ہی نظمیں میں نے برساتوں ، جاڑے اور چاند راتوں میں پڑھی اور یاد ہو گئیں۔بدلتے موسم کی ہوائیں جب جب دل پر دستک دیتی ہیں مجھے امجد اسلام کی اس کتاب کی کوئی نظم یاد آ جاتی ہے۔ اتفاق دیکھیے ، امجد اسلام امجد صاحب سے کبھی کوئی ملاقات نہیں ہو سکی۔ کبھی خواہش ہی نہیں کی۔ ان کے مداح کے لیے ان کی یہ نظمیں ہی کافی تھیں۔ اس کے بعد کوئی تشنگی باقی ہی نہیں رہتی تھی۔یہ نظمیں ہاتھ تھامے آدمی کو ان پگڈنڈیوں پر لے جاتی ہیں جہاں سمجھ ہی نہیں آتی ہم پیچھے رہ گئے یا آگے نکل گئے۔ ان سے ملنا اور باتیں کرنا بھی اک خواب ہی لگتا تھا۔لیکن خواب توپھر خواب ہوتے ہیں۔ ’ صاحبو ، خواب پرندوں کی طرح ہوتے ہیں چھونا چاہو تو یہ اڑ جاتے ہیں اور پھر ہاتھ نہیں آتے ہیں اڑتی خوشبو کی طرح قید نہیں ہو سکتے کسی بھی تیر سے یہ صید نہیں ہو سکتے کبھی منزل کبھی رستوں کی طرح ہوتے ہی صاحبو،خواب پرندوں کی طرح ہوتے ہیں صاحبو خو اب کھلونوں کی طرح ہوتے ہیں آبگینوں کی طرح پھوٹ گئے اک ذرا ٹیس لگی ، ٹوٹ گئے ٭٭٭٭٭ سیلف میڈ لوگوں کا المیہ روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے زندگی کے رستے میں بچھنے والے کانٹوں کو راہ سے ہٹانے میں ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں خوشبوئیں پکڑنے میں گلستاں سجانے میں عمر کاٹ دیتے ہیں عمر کاٹ دیتے ہیں اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں صبر کے سمندر میں کشتیاں چلاتے ہیں یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا کچھ صلہ نہیں ملتا امجد اسلام امجد ایک فرد کا نہیں ، ایک مکتب کا نام تھا۔ یہ ایک شخص کی موت نہیں ہے ، یہ ایک عہد تھا جو تمام ہوا۔ امجد اسلام امجد نے منیر احمد شیخ کے لیے لکھا تھا ، دیکھیے تو کتنا حسب حال ہے: اے خدا ، یہ ترا مال تھا ، تو نے واپس لیا ہم جو اس موسم گل کی یادوں میںہیں تیرے دربار میں سر جھکائے ہوئے کرتے ہیں التجا اس لحد کے مکیں پر کشادہ رہے تیری رحمت سدا اے خدا ۔۔۔اے خدا ٭٭٭٭٭