یوں تو گذشتہ 61 سالوں میں آئی ایم ایف کے سودی قرضہ جاتی نظام کا یہ بائیسواں پروگرام ہے، لیکن اس پروگرام کے چھٹے جائزہ کے بعد فقط 1.1 ارب ڈالر سودی قرض کی منظوری پر جس طرح خوشی کے شادیانے بجائے گئے، مسرت کے ڈھول پیٹے گئے ایسا منظر پہلے نہیں دیکھا تھا۔ لیکن سب سے تکلیف، دُکھ اور اذیت، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے اس ٹویٹ سے ہوئی جس میں اس نے پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کے (Extended Fund Facilty)، EFF پروگرام کے دوبارہ اجراء اور ساتویں، آٹھویں اقساط کی ترسیل کے وعدے کا اعلان ہوتے ہی اپنے ٹویٹ کے آغاز میں ’’الحمدللہ‘‘ لکھا۔ جب قوم کی رگوں میں سود لہو کی طرح دوڑنے لگے، اس کی حرمت کا تصور ختم ہو جائے اور لوگ بحیثیت قوم اللہ کی وعید سے نہ ڈریں تو پھر ایک دن یہی مرحلہ آ ہی جاتا ہے، کہ قومی سطح پر حلال و حرام کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ پاکستان میں بینکنگ کے آغاز سے لے کر گذشتہ تین دہائی پہلے تک بینک ہمیشہ اپنے اشتہارات میں سود کی جگہ لفظ ’’منافع‘‘ لکھا کرتے تھے کہ انہیں علم تھا کہ اگر انہوں نے براہِ راست ’’سود‘‘ کا لفظ استعمال کیا تو لوگ شاید ان کے بینکوں کا رُخ نہ کریں۔ اسی طرح جب ہر سال سٹیٹ بینک شرح سود کا اعلان کرتا تو کبھی بھی ’’سود‘‘ کا لفظ استعمال نہ کرتا بلکہ شرح منافع کی سرخیاں اخبارات میں لگائی جاتیں۔ انگریزی اخبارات میں بھی لفظ "interest" استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ "Profit" لکھا جاتا تھا۔ اہلِ ایمان کا یہ دُکھ تو اس وجہ سے درست ہے کہ ہم بحیثیت قوم سود کی صورت خنزیر کے گوشت سے بھی بُری چیز کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں، لیکن اب ہمیں اس سے بالکل کراہت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ ہمیں اندازہ تک ہی نہیں ہو رہا کہ ہم دانستہ یا نادانستہ طور پر اللہ اور اسکے رسولؐ کے مقابلے میں براہِ راست جنگ میں شریک تو برسوں سے تھے ہی، لیکن اب ہم نے ڈھٹائی کے ساتھ اس پر فخر بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ مگر اس مذہبی تناظر سے برعکس، اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہم جس آئی ایم ایف کے پروگرام پر فخر کر رہے ہیں اور جس قرضے کے ملنے پر ہماری باچھیں کِھلی جا رہی ہیں، کیا ایسے پروگرام نے دُنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کو آج تک کبھی فائدہ پہنچایا؟ کوئی ایک ایسا ملک ہے، جو آئی ایم ایف کے آکٹوپس والے شکنجے میں پھنسا اور پھر کبھی اپنی معاشی ترقی کا خواب پورا کر سکا؟۔ آئی ایم ایف پروگرام دراصل عالمی سودی نظام کے ایک شاندار ’’جال‘‘ کا نام ہے، جو 1945ء کے ’’بریٹن ووڈ‘‘ معاہدے کے بعد پھیلایا گیا۔ اس شکنجے کا آغاز دراصل جنگِ عظیم اوّل کے بعد سے ہی کر دیا گیا تھا۔ جنگِ عظیم اوّل سے پہلے قرض اور اس پر سود ایک انفرادی عمل ہوتا تھا۔ ہر کوئی اپنی ضروریات کے مطابق کسی مہاجن، سود خور یا بینک سے قرضہ لیتا اور اس قرض پر سود ادا کرتا۔ کہیں کہیں تاریخ میں بادشاہ اور حکومتوں کے قرض لینے کے قصے بھی ملتے ہیں لیکن وہ بھی اپنے ہی شہریوں سے قرض کی بابت ہیں۔ اس کی اہم ترین مثال 1694ء کے انگلینڈ کی ہے، جس نے فرانس کے خلاف اپنی بڑی اتحادی جنگ (Grand Alliance War) کی وجہ سے پارلیمنٹ سے فنڈز اکٹھا کرنے کے لئے بینک آف انگلینڈ کا چارٹر منظور کرتے ہوئے، عوام کو اپنا سرمایہ بینک میں رکھنے کا راستہ دکھایا اور پھر اسی سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے طویل جنگ لڑی گئی۔ یہیں سے دُنیا میں حکومتوں کے ’’اندرونی قرضے‘‘ کے تصور کا آغاز ہوا۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ عوام سے یہ کہہ کر بینک میں سرمایہ رکھنے کو کہا گیا کہ تمہیں سود کی صورت منافع ملے گا، پھر حکومت نے وہ سرمایہ خود استعمال کیا، اور انہی عوام پر ہی ٹیکس لگا کر انہیں سود کی صورت منافع ادا کیا۔ اس گورکھ دھندے میں ایک عام آدمی کو بس اتنا سمجھ میں آیا کہ وہ بینک میں پیسے رکھے گا تو اسے گھر بیٹھے سود کی صورت رقم ملتی رہے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ رقم اسی نے ٹیکسوں کی صورت حکومت کو ادا کی ہوتی ہے، مگر اس تصور کے ساتھ ہی ملکوں کے سودی معاشی نظام کی جڑیں مضبوط ہو گئیں۔ پہلے کسی شخص کے پاس اگر اپنی ضروریات سے کئی گنا زیادہ سرمایہ موجود ہوتا، تو وہ ضرورت مندوں کو قرض دے کر سود وصول کرتا اور اپنی زندگی بغیر کسی کام کئے گزارتا رہتا۔ لیکن اس بینکاری نظام کے آنے کے بعد اب اگر کسی کے پاس صرف چند سو روپے بھی فالتو موجود ہیں تو وہ اس اُمید پر بینک میں جمع کروا دیتا ہے کہ اسے چند روپوں کی صورت ہی سہی منافع یا سود تو ملتا رہے گا۔ اندرونی قرضوں کے اسی آغاز نے بینک آف انگلینڈ کے سرمایہ داروں کو برطانیہ کے معاشی نظام کا کرتا دھرتا بنا دیا۔ انگلینڈ جنگ میں اپنا سب سرمایہ گنوا بیٹھا اور تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ کوئی حکومت اپنے ہی عوام کے سرمائے کی مقروض ہو گئی۔ اس قرضے کی ادائیگی کا وعدہ حکومت نے براہِ راست عوام سے نہیں بلکہ بینک سے کیا ہوا تھا۔ اب بینک آف انگلینڈ عوام کے سرمائے کا محافظ اور کاروباری نمائندہ بن کر تاجِ برطانیہ کے پاس پہنچا اور اسے قرض کی واپسی یاد دلائی گئی۔ اس دَور میں لوگ سونے اور چاندی کے سکوں میں کاروبار کیا کرتے تھے۔ حکومت کے لئے ان میں ادائیگی تو بہت مشکل تھی کیونکہ حکومت کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔ سود خور عیّار بینکاروں نے ایک تجویز سامنے رکھی۔ یہ تجویز دراصل صدیوں سے یہودی سنّاروں کے کاروبار سے کشید کی گئی تھی۔ یہودی سرمایہ دار لوگوں کا سونا اپنے پاس امانتاً رکھتے اور اس کے بدلے ایک کاغذ کی رسید دیتے، کہ اس شخص کا اتنا سونا میرے پاس امانتاً موجود ہے اور وہ شخص اس رسید کو دکھا کر یا اس کاغذ کو بیچ کر گندم، چاول، کپڑے، جوتے وغیرہ خریدتا رہتا۔ یوں بازار میں سونا اور چاندی کے سکے نہیں، بلکہ یہودی سنّاروں کے کاغذ چلتے تھے۔ بینک آف انگلینڈ نے تاجِ برطانیہ کو مشورہ دیا کہ اگر آپ ہمیں ایسے ہی کاغذات جاری کرنے کی اجازت دیں جو اس بات کی ذمہ داری لیں کہ اس کاغذ کے بدلے اتنے سونے یا چاندی کے سکّے ادا ہوں گے تو ہم عوام کو یہ کاغذ دے کر مطمئن کر سکتے ہیں اور عوام انہی کاغذوں کی بنیاد پر خریداری کرتے رہیں گے۔ اس طرح انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک "Promissory Note" یا کاغذی کرنسی جاری کرنے کا اختیار بینک آف انگلینڈ کو مل گیا اور ملکی سطح پر سودی بینکاری کی بھی بنیاد رکھ دی گئی اور ’’اندرونی حکومتی قرضے‘‘ کا تصور بھی شروع ہو گیا۔ اب کسی ایک ملک کے عوام نہ چاہتے ہوئے بھی ایک سودی نظام کے شکنجے میں آ گئے۔لیکن غیر ملکی قرضوں کا آغاز جنگِ عظیم اوّل میں اتحادی افواج کی فتح کے بعد سے ہوا۔ ورسائی (Versailles) معاہدہ جو 1919ء میں ہوا تھا اس کے تحت فاتح افواج نے مفتوح جرمنی پر 32 ارب ڈالر کا قرضہ بصورت تاوان نافذ کر دیا، اور ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ یہ قرضہ غیر ملکی کرنسی میں ادا ہو گا۔ جرمن حکومت نے قرض کی ادائیگی کے لئے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کرنسی (جو سونے اور چاندی میں تھی) اس کو خریدنے کے لئے کاغذی نوٹ چھاپنے شروع کئے، جس سے اس قدر افراطِ زر بڑھا کہ جرمن مارک کی قیمت بالکل ختم ہو گئی۔ اب جرمنی نے 1923ء میں قرضے کی ادائیگی کے بدلے اپنا خام مال دینا شروع کر دیا۔ کئی دفعہ جب ایسا ہوا کہ جرمنی خام مال بھی مہیا نہ کر سکا تو فرانس اور بلجیم نے جرمنی کے کوئلے کے ذخائر پر قبضہ کر کے قرضے کی قسط وصول کی۔ (جاری ہے)