کشمیر اور کابل امن عالم کے ضامن ہیں۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے کابل کو ’’کلیدِ ایشیا‘‘ کہا ہے اور وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ جو کابل یعنی افغانستان پر حکمرانی کرے گا‘ وہی ایشیا بلکہ عالمی حکمرانی کا مستحق ہو گا۔کشمیر کابل کی راہداری ہے۔یہ راہداری سیاسی‘ دفاعی اور تجارتی ہے جبکہ اس راہداری کا محور(Pivot)مضبوط‘مستحکم اگر تحریک پاکستان کے اغراض و مقاصد کو مدنظر رکھا جائے تو اسلامی‘جوہری اور جہادی پاکستان ہے یعنی پاکستان کی سلامتی کشمیر اور کابل میں مضمر ہے۔اگر خطے میں نئی تیسری قوت کو متعارف کرایا گیا تو اس کی فوقیت پاکستان کی (خاکم بدہن)شکست و ریخت پر منحصر ہو گی۔لہٰذا کشمیر کے ضمن میں ہر قدم پھونک پھونک اٹھایا اور رکھا جائے۔بقول علامہ اقبال ’’شمالی ہند(پاکستان) اور افغانستان کے ذمے کوئی بڑا کام لکھنے والا ہے۔نیز سارے مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کی نجات مذکورہ خطے کے مسلمانوں کے فکر و عمل پر منحصر ہے(بحوالہ پاکستان۔حصار اسلام ازپروفیسر محمد منور) قیام پاکستان کے وقت غیر منقسم کشمیر میں مسلم آبادی 96.41فیصد‘ ہندو 02.45فیصد‘ سکھ 0.81فیصد اور باقی دیگر مذاہب سے وابستہ تھے جبکہ آج کشمیر کا رقبہ 55فیصد بھارت 30فیصد پاکستان اور 15فیصد چین کے زیر انتظام ہے۔مقبوضہ کشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 25تا 35لاکھ ہے۔مسلم آبادی 68.31فیصد ہندو 28.44فیصد سکھ 1.87فیصد عیسائی 0.28فیصد بدھ0.90فیصد ہیں۔بھارت کی سرکاری پالیسی رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی مسلم آبادی کو غیر مسلم آبادکاری سے متاثر کیا جائے۔اس ضمن میں بھارت نے 5اگست 2019ء کو آرٹیکل 370اور شق 35-Aکو ختم کر کے بھارت کا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔اس حوالے سے سابق حکومت کا حکم تھا کہ جو پاکستانی پاک بھارت کشمیر سرحد پر جا کر ہمدردی یا یکجہتی کا اظہار کرے گا‘وہ غدار ہو گا‘سابق حکومت کا موقف تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے صرف عالمی اداروں‘طاقتوں اور ثالثوں سے پرامن انداز میں بات کی جائے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک (ADP)عالمی بنک اور آئی ایم ایف(IMF)کا ذیلی ادارہ ہے۔نواز شریف کے دور ثالث کے علاوہ پاکستان کے تمام وزیر خزانہ اور کسی حد تک وزارت خزانہ کے اہلکار مذکورہ عالمی اداروں کے معتمد رہے ہیں۔نیز عالمی مالیاتی ادارے اپنے قرض اور سود کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے ضامن مقتدر اشرافیہ کے محافظ اور سرپرست ہے، سابق دور حکومت میں پاکستان کے معاشی جی ایچ کیو(Financial GHQ)بنک دولت پاکستان SBPکو آئی ایم ایف کی خود مختاری میں دے دیا گیا۔جس کے بعد پاکستان میں نہ ختم ہونے والی مہنگائی اور غربت کے مہیب بلکہ مہلک سائے منڈلا رہے ہیں۔ اسرائیل کے قیام میں عالمی طاقتوں برطانیہ‘ امریکہ اور روس کے صدور چرچل‘ آئزن ہاور اور سٹالن کا بنیادی متفقہ کردار ہے جبکہ اقوام متحدہ عالمی بنک آئی ایم ایف ایشیائی ترقیاتی بنک (UNO,WB,IMF,ADB)جیسے مالیاتی اور اخلاقی عالمی ادارے اسرائیل کے بالواسطہ محافظ اور سرپرست ہیں۔جو انسان کش اسرائیلی استعماری دہشت گردی کو دامے درمے‘ سخنے تحفظ جواز فراہم کرتے ہیں ، نیز اسرائیل کے قیام میں فلسطین کے اندر یہودی آباد کاری کا بھی اہم ترین کردار ہے اور اب عالمی طاقتیں‘ ادارے بھارت اسرائیل دفاعی تجارتی سازباز کا آلہ کار بن کر کشمیر کا ’’مرضی‘‘ کے مطابق حل چاہتے ہیں۔مسئلہ کشمیر کے کئی پہلو ہیں، جو حساس اور پیچیدہ ہیں۔ پاکستان کی شہ رگ کشمیر تک رسائی حاصل کی کشمیری مسلمانوں کی بے بسی اور کسمپرسی ہندو ڈوگرہ راج سے شروع ہوئی اور غالباً1932ء میں ایک مسجد کی اذان کی تکمیل کم از کم 22شہدا نے کی کیونکہ ڈوگرہ راجہ کے حکم سے مسجد کے مؤذن اور مظاہرین کو مسلسل گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔کشمیر ایکشن کمیٹی اور مسلم حریت کانفرنس وغیرہ کا ظہور مندرجہ بالا پس منظر میں ہوا۔یہی اسلامی سیاسی کشمکش نیشنل اور سیکولر اہداف میں ڈھلتی گئی۔مگر یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے کشمیر پارلیمان نے اکثریتی رائے کے ساتھ پاکستان سے الحاق کی قرار داد منظور کی جبکہ بھارت نے برطانوی سرکار کے ساتھ سازباز کر کے ڈویرہ راجہ ہری سنگھ کی جانب سے ناجائز اور غیر قانونی اور جعلی دستاویز کو بنیاد بنا کر بھارتی افواج کشمیر پہنچا دیں۔قائد اعظم نے بھارت کے جنگ کا اعلان کیا۔برطانوی جنرل گریسی پاک فوج کے موروثی سربراہ تھے ،انہوں نے بھارتی گورنر جنرل اور برطانیہ کے آخری وائسرائے ہند کے خلاف کشمیر میں فوج بھیجنے سے انکار کر دیا ،قائد اعظم نے عام جہاد کا حکم دیا اور غیور پاک قبائلی عوام نے گلگت بلتستان‘ مظفر آباد‘ میر پور‘ راولا کوٹ اور پونچھ کا بہت سے علاقہ فتح کر کے حکومت پاکستان کے حوالے کیا۔دریں اثناء قائد اعظم رحلت فرما گئے پاکستان کے برطانیہ نواز قادیانی وزیر خارجہ سرظفر اللہ خان نے مذکورہ مفتوحہ علاقہ کا پاکستان سے الحاق اس بنیاد پر رکوا دیا کہ اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت سے الحاق کے اصول پر استصواب رائے(حق خود ارادیت) کرائے گی۔ بینظیر کے دور اول میں راجیو گاندھی نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور اسلام آباد سے کشمیر ہائی وے کے نام سے آویزاں تمام سائن بورڈ اتار دیے گئے کہ وزیر اعظم بھارت راجیو گاندھی کی نازک طبیعت پر گراں نہ گزریں،ماضی قریب میں کشمیر ہائی وے نام کی سڑک کا نام بھی تبدیل کر دیا ،اگر پاکستان اپنے بنیادی‘ اصولی اور اسلامی موقف سے ہٹا تو عالمی طاقتیں اور ادارے بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ کے ساتھ مقبوضہ کشمیر برائے توسیع براجمان ہو جائیں گے، جس کے نتیجے میں پاکستان کا چین سے زمینی رابطہ کٹ جائے گا اور گیم چینجنگ سی پیک کے ابتدائی روٹ Rootسے پاکستان کٹ کر چین اور کابل سے بھی محروم ہو جائے گا کیونکہ امریکی افواج سے کابل سے انخلاء کیا ہے مگر پاک افغان قبائلی سرحد پر تاحال بھارت‘ برطانیہ‘ اسرائیل امریکہ اور روس کا انٹیلی جنس نیٹ ورک آپریشنل کارفرما ہے۔ اگر مسئلہ کشمیر عالمی مرضی کے مطابق طے پایا تو پاکستان شہ رگ کے ساتھ گردن بھی دبوچی جائے گی کیونکہ سقوط ڈھاکہ کے ساتھ کارگل کا علاقہ بھی تحفتاً بھارت کو دے دیا گیا تھا۔