مال روڈ پر بڑی بڑی عالیشان سرکاری عمارات کے پہلو میں۔۔گورنر ہائوس کے سامنے ایک فائیو سٹار ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ایک عمارت ہے،وہ بتاتی ہے کہ نظریۂ پاکستان کیا ہے۔ مجھے35سال ہو گئے۔۔ میں اکثر اس عمارت کے پاس سے گزرتا ہوں مگر مجھے دعوتی کارڈز کے باوجود یہ جاننے کی ہمت کبھی نہیں ہوئی کہ نظریۂ پاکستان کیا ہے۔اردو میں لکھی ہوئی درسی کتب پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے ایک ہی طرح کا نظریۂ پاکستان پیش کرتی ہیں۔پاکستان کا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا،اِس تصورکو عملی تعبیر قائد اعظم محمد علی جناح نے دی۔محمد بن قاسم،سندھ،دیبل کی فتح اور راجہ داہر وغیرہ۔کبھی اس پر بھی بات کریں گے مگر فی الحال یہ کہ1947ء میں ایک ملک بنا جو اسلامی نظریے کے نام پر تھا۔نعرہ لگا۔۔پاکستان کا مطلب کیا؟ یہ بھی سب کو پتہ ہے۔ سرکاری سکولوں اور کالجوں کی دیواروں پر ایک شعر اکثر لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے۔۔۔نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔یہ مصورِ پاکستان کا شعر ہے۔ہمیں ملک لیے 75 سال گزر گئے۔دیکھنا چاہیے کہ پاکستان اور نظریۂ پاکستان اب کہاں ہیں؟۔یہ موڑ اب بھی وہیں ہے لیکن۔۔آواز میں پڑ گئیں دراڑیں۔اس وقت مسلم اُمت کے ایک حصے غزہ پر قیامت ڈھائی جا رہی ہے۔۔جس نہج کی تباہی ہے اُس میں چند دن کیا مہینوں کا وقفہ بھی ناکافی ہو گا۔اندھوں کو نظر آ رہا ہے اور بہروں کو سنائی دے رہا ہے کہ مسلم اُمت کتنی بے بس، بے رنگ،بے بو اور بے ذائقہ ثابت ہوئی ہے۔ساری دنیا کو پتہ ہے کہ اگر امریکہ،برطانیہ اور یورپ اسرائیل کی حمایت اور مدد نہ کریں تو ایسا ظلم،ایسا جبر اور ایسی بربریت ممکن ہی نہیں۔ مسلم اُمت کے دارالحکومتوں میں امریکی اور برطانوی سفارتکار کیسے زندگیاں گزارتے ہیں؟ان کے چہروں اور ماتھوں پر کوئی شکن،کوئی تفکر یا کوئی تدبرنظر آتا ہے؟ریاض سے قاہرہ تک اور اسلام آباد سے انقرہ تک راوی نے چین ہی چین لکھا ہوا ہے اُن کے لیے۔57مسلمان ملکوں کے عوام۔۔مضطرب،بے چین،دکھی اور غمزدہ ہیں۔ظلم اِس شدت کا ہے کہ ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا۔اسی لیے غیر مسلم عوام بھی سڑکوں پر سراپا احتجاج بن گئے۔پاکستان بھی ایک مسلمان ملک ہے۔اس کے عوام بھی بے چین،دکھی اور مضطرب ہیں۔کسی کا شعر ہے۔۔دلِ مضطر کو سمجھایا بہت ہے۔۔مگر اس دل نے تڑپایا بہت ہے۔اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر پہلے عمران خان سے جیل میں ملے۔پھر آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی پھر وہ جاتی عمرہ چلے گئے۔ملاقات کی جو ویڈیو کلپ دیکھی،پرانے زمانے کے گائوں کے مہمان نواز چوہدری اور کسی شہری بابو کی پذیرائی یاد آ گئی۔میزبانوں کے فیس ایکسپریشن،باڈی لینگویج،آئو بھگت،نشستوں کی ترتیب۔۔۔ میرے پیا گھر آئے۔اِ س ملاقات میں اور بھی تھے مگر میری یادداشت سے دو تین چہرے چپک کر رہ گئے۔میاں نواز شریف کی مسکراتی ہوئی بے تکلف گفتگو کا انداز،مریم نواز کی باادب مسکراہٹ اور مریم اورنگزیب کا فدویانہ انداز۔کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ اسلام آباد،ریاض ،انقرہ اور قاہرہ جیسے شہروں میں وہاں کی اشرافیہ وڈے چوہدری (امریکہ)سے اتنے مسکین اور یتیم انداز میں کیوں ملتی ہے؟۔آج صرف اپنی بات کرتے ہیں۔غزہ پر بمباری جاری تھی اور امریکی سفیر ہمیں شفاف الیکشن اور لیول پلیئنگ فیلڈ کا مشورہ دے رہے تھے۔ہم اپنی اشرافیہ کو اپنا نجات دہندہ اور مسیحا تصور کرتے ہیں۔وہ ہمارے ووٹوں اور جذبوں کا مول لگاتے ہیں،دنیا کے بڑے چوہدری کے ساتھ۔ایک وڈا چوہدری ہے اور ایک چھوٹا چوہدری۔دونوں چوہدریوں کے ہاتھ کی ڈوروں سے بندھے چند سیاستدان۔آج میری باری کل تمہاری جیسے لوگ۔ آپ نے رینٹ اے کار تو سُنا ہو گا۔ہمارے ہاں بہت کچھ رینٹ پر ہوتا ہے جس کا ذکر ممکن نہیں۔ہم ہر شے کرائے پر دے دیتے ہیں اور کرائے سے شاہانہ زندگی گزارتے ہیں۔پوری نہ پڑے تو بھاری سود پر قرض لے لیتے ہیں۔ ڈالروں میںناممکن شرائط پر۔اُن پیسوں سے غیر ملک میں اکائونٹ کھولتے ہیں،پراپرٹی بناتے ہیں اور پھر میڈیا پر عوام کے دکھوں کی مجلس اور ماتم کرتے ہیں۔ ہماری Elite ضرورت مند بھی ہے اور لالچی بھی۔اِ ن کے پاس چونچیں اور پوٹیں نہیں۔۔جبڑے اور معدے ہیں۔ڈالر بھی ہضم اور ملنے والے قرضے بھی۔اسرائیل اور پاکستان دونوں نظریاتی ریاستیں ہیں۔۔مذہبی نظریاتی۔مگر صابن اور سرف میں فرق صاف ظاہر ہے۔ہمارا نظریہ۔۔کورس کی کتابوں،ٹی وی اشتہاروں اور تاریخ کی سرکاری کتابوں میں بنتا ہے۔ہمارے نظریے کے علمبردار،محافظ اور ضامن وہ ہیں جو امریکہ اور یورپ کے شوقین اور مسکین ہیں۔معصوم عوام اسے سچ جان کر اور سچ مان کر زندگی گزارتے ہیں۔ جب زندگی نظریوں سے باہر آتی ہے تو کیا نظر آتا ہے؟کرپشن،جھوٹ،لوٹ کھسوٹ،منافقت،ریا کاری،بت پرستی(زندہ انسانوں کی پوجا)،طاقت کو سجدہ اور عملی طور پر نظریے اور خُدا کا انکار۔نظریۂ اسلام تو یہ ہے کہ اُسی کو اَحد اور واحِد مانو مگر ہم نے ہر جگہ طاقت اور قرض کے بہت سارے خُدا اور بت تراش رکھے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ننگی جارحیت اور مسلمان ملکوں کی تنظیم اپنا لائحہ عمل طے نہیں کر پاتی۔وہ سب حالات موجود ہیں جہاں سے تاریخ کا رُخ بھی طے ہو رہا ہے اور وقت بھی کروٹ لے رہا ہے۔مگر اندھوں کو دکھائی نہیں دے رہا اور بہروں کو سنائی دینا بند ہو گیا ہے مگر خون اپنا رنگ ضرور دکھائے گا۔