انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے (یونیورسل ڈیکلیئریشن آف ہیومن رائٹس) کے آرٹیکل 13 کی کلاز 2 کے مطابق ہر آدمی کا یہ حق ہے کہ وہ جب چاہے اپنے وطن لوٹ سکے ۔اس کے بعد جب اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کا معاملہ اٹھا تو یہ رکنیت اسرائیل کو تین یقین دہانیوں کے بعد دی گئی۔ جس قرارداد میں اسرائیل کی رکنیت کا فیصلہ ہوا، وہ 11 مئی 1949ء کی قرارداد نمبر 273 ہے۔ اس قرارداد میں اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت تسلیم کرنے سے پہلے حوالے کے طور پر قرارداد نمبر 194 کا ذکر کیا گیا جس میں فلسطینیوںکی واپسی کا اصول طے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس قرارداد میں لکھا گیا کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر عمل کرنے کی '' انڈر ٹیکنگ'' دی ہے اور عہد کیا ہے کہ اگر وہ اقوام متحدہ کا رکن بن جائے تو اس پر عمل کرے گا۔ تیسری بات اس قرارداد میں یہ کی گئی کہ اسرائیل یہ عہد کر چکا ہے کہ جب وہ اقوام متحدہ کا رکن بن جائے گا تو وہ فلسطینیوں کی واپسی کے لیے جنرل اسمبلی کی لائی گئی قرارداد نمبر 194 کا نافذ کرے گا اور اس کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گا۔ اس کے بعد قرارداد میں یہ کہا گیا کہ اب جنرل اسمبلی اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ یعنی یہ رکنیت اس عمل سے مشروط تھی کہ اسرائیل جبری طور پر نکالے گئے 7 لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو واپس آنے دے گا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کی واپسی پر بعد میں بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں باب 3 میں لکھا کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت اس شرط پر دی گئی کہ وہ واپسی کی یقینی بنائے گا۔ اس سے قبل جب اسرائیل کی رکنیت کے حوالے سے بحث ہو رہی تھی تو جنرل اسمبلی میں اسرائیل کے نمائندے سے ایک سول کیا گیاکہ اگر اسرائیل کو اقوام متحدہ کا رکن بنایا جاتا ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل جب اسرائیل سے کہا جائے گا کہ وہ فلسطینیوں کے واپسی کو یقینی بنائے تو وہ آگے سے اس مطالبے کو اپنی داخلی خودمختاری کے خلاف قرار دے کر کوئی عذر کھڑا نہیں کرے گاَ؟ اسرائیل سے بہت واضح طور پر سوال کیا گیا کہ کیا وہ فلسطینیون کی واپسی کے لیے جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 194 کے پیراگراف 11 کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں؟ جواب ملا: اسرائیل کی حکومت اس پیراگراف سمیت اقوام متحدہ کی قرارداد کے کسی بھی پیراگراف کو رد نہیں کرتی۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے تسلیم کیا کہ اسرائیل نے یہ یقین دہانی کرا دی ہے کہ اگر اسرائیل کو اقوام متحدہ کی رکنیت دی جاتی ہے تو فلسطینیوں کی واپسی یا یروشلم کی حیثیت کے بارے میں اقوام متحدہ جو کہہ چکی ہے اس سے انحراف نہیں ہو گا اور ان دونوں معاملات کو اسرائیل کا داخلی معاملہ قرار نہیں دیا جائے گا۔ جن کے خیال میں یہ معاملہ اسرائیل کا داخلی معاملہ ہے، انہیں اپنا قانونی فہم بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل نے البتہ اس وعدے سے بھی انحراف کیا۔ جیسے ہی اسے اقوام متحدہ کی رکنیت مل گئی اس کے ریاستی عہدیداران نے کہنا شروع کرد یا کہ وہ اس قرارداد کے متعلقہ حصے کو تسلیم نہیں کرتے، یہاں تک کہ انہوں نے قرارداد 194 کو منسوخ اور کالعدم قرار دے دیا۔یعنی اسرائیل نے اس قرارداد کو بھی پامال کیا جس کے نتیجے میں وہ قائم ہوا اور اس نے ا س قرارداد کو بھی پامال کیا جس کے نتیجے میں اسے اقوام متحدہ کی رکنیت ملی۔ اقوام متحدہ کا رکن بننے کے بعد جب اس سے اقوام متحدہ نے کہا کہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرے جن کا اس نے وعدہ کیا تھا اور اب وہ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں پر واپسی کا حق دے تو اسرائیل نے 1955ء میں یہ جواب دیا: '' ہم اقوام متحدہ کی کمیٹی کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ اسرائیل ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور اس بات کا فیصلہ کرنے کااختیار صرف اسرائیل کے پاس ہے کہ ا س نے کس کو اپنے ملک میں آنے دینا ہے اور کس کو نہیں''۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، اس کے اصولوں اور ضابطوں اور اس سے کے گئے وعدوں کو پامال کرتے ہوئے اسرائیل نے یہ تشریح کرنا شروع کر دی کہ '' واپسی کا حق'' اصل میں یہودیوں کی واپسی کا حق ہے، اس کا فلسطینیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسرائیل کی پارلیمان نے 1950ء میں ہرزل کی برسی کے موقع پر عجلت میں '' واپسی کا قانون '' پاس کیا۔اس قانون یعنی Law of Return کی دفعہ 1 میں لکھا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی یہودی موجود ہے تو اس کا حق ہے کہ و ہ ہجرت کر کے اسرائیل آ جائے۔ جو عرب اس زمین پر آباد تھے، جن کی واپسی کی ضمانت اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون نے دے رکھی ہے، اسرائیل ان کو تو واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن یہودی دنیا میں کہیں بھی رہ رہا ہو وہ Law of Return کی دفعہ 1 کے تحت صرف یہودی ہونے کی وجہ سے یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اسرائیل آ جائے ا ور یہاں کا شہری بن جائے۔ نسل پرستی کی اس سے بد ترین مثال شاید ہی کوئی ہو۔دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل آنے اور یہاں کا شہری بننے کا حق دے دیا گیا تو سوال اٹھا کہ یہودی کون ہے؟ آرتھوڈاکس یہودی تصورکے مطابق یہودی وہ ہوتا ہے جس کی ماں یہودی ہو۔ اسرائیل عربوں کو نکال کر ان کی زمینوں پر قبضے کر کے اب آبادی کا تناسب بھی بدلنا چاہتا تھا کیونکہ عربوں کے قتل عام اور ان کو زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنے کے باوجود عالم یہ تھا کہ اسرائیل میں 30 فیصد سے زیادہ عرب تھے اس لیے یہودی ماں کے بچوں والی شرط میں تبدیلی کرتے ہوئے اس قانون میں ترمیم کی جاتی رہی۔ اس وقت قانونی صورت یہ ہے کہ جو یہودی ماں سے پیدا ہوا وہ یہودی دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو وہ اسرائیل آ سکتا ہے اور اسرائیل کا شہری بن سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ جس کا دادا یہودی ہو یا جس کی دادی یہودی ہو، یا جس کا نانا اور نانی میں سے کوئی یہودی ہو یا جس کا شوہر یہودی ہو یا جس کی بیوی یہودی ہو اس کو بھی یہودی تصور کرتے ہوئے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل آ جائے اور وہاں کی شہریت لے لے۔ حتی کہ ہم جنس پرست یہودی مرد کسی غیر یہودی مرد کو اپنا شوہر بنا کر لے آئے تو اس '' شوہر'' کو بھی اسرائیل آنے کا حق دیاگیا اور شہریت دی گئی لیکن جو فلسطینی عرب ان زمینوں کے مالک تھے، جن کے حق کے بارے میں جنرل اسمبلی کی درجنوں قراردادیں موجود ہیں ان کوواپسی کا حق نہیں دیا گیا۔ ( ختم شد)