وہی ہے جس نے بھید وں بھری یہ کائنات تخلیق کی ۔یہ بھیدوں بھری کائنات جس میں اسرار در اسرار ہیں، غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں ، راز ہیں۔وہ راز، جو کسی ریاضت کیش پر کھلتے ہیں اور خلوص والوں پر۔ وہ ،جو رائی کے دانے کے برابر بھی خلوص دیکھ لیتا ہے، وہ ،کسی خالص کو بے مراد نہیں رکھتا۔ سو کسی راز تک پہنچنا ہے تو پورے خلوص کے ساتھ ریاضت کا دامن تھام لیجئے۔ جان لیجئے، یہ کائنات اور خدائے واحد و یکتا کا کلام ایک مسلسل دعوت ِ فکر و عمل ہے۔ وہ کہتا ہے نظام سے نظام تخلیق کرنے والے تک سفر کرنا ہے تو غور کیجئے ، ہر لحظہ ، ہر سمت ، ہر جہت غور کیجئے ،کہ فکر کا ایک لمحہ سال ہاسال کی عبادت گزاری سے افضل ہے۔یہی مقصدِ تخلیقِ حیات ہے۔ ہمارے گرد وپیش پھیلا ہوا زمان ومکاں، اس کی تمام تر آسائش اور ترقی، غور کرنے والوں کی ہی مرہونِ منت ہے۔ یہ جو رنگ آپ دیکھ رہے ہیں سب فکر کرنے والوں کی بدولت ہیں۔ وہ ایسا انصاف پسند ہے کہ کائناتی اُصول تخلیق کر دینے کے بعد اُنہی پہ فیصلے صادر کرتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ ان اُصولوں پہ کاربند انسان اُس پہ ایمان بھی رکھتا ہے کہ نہیں، اس کی وحدت ویکتائی کا اعلان بھی کرتا ہے کہ نہیں۔ بس خلوصِ دل سے پوری لگن اور جستجو سے جُت جایئے ،میں اپنے رازوں کی کنجیاں تمہارے ہاتھوں میں دیتا چلا جائوں گا۔ ایسے ہی سیب ٹہنی سے گرا اور ثقل کی کشش کا راز کھلا۔ تفکر ہو تو اک لمحے کی بینائی غنیمت ہے وگرنہ سیب ٹہنی سے تو پہلے بھی گرا ہو گا طب کی دنیا کے راز ، فلک کی دنیا کے راز،موسموں اور ہواوں کے راز، صفر اور ایک کے راز، فاصلوں کو سمیٹ دینے والے ،دن اور رات کو لپیٹ دینے والے راز ،بادلوں کے راز،بادبانوں کے راز، سمندروں کے ،سمندروں کی تہوں سے برآمد ہوتے ہوئے راز، یہ رازہر کس و ناکس پر نہیں کھلتے، منزلِ عز و شرف کی فضیلت ہر کسی کے لئے نہیں۔تخلیق کی غائیت سجدوں میں گم ہو جانا نہیں ۔ سجدہ تو کبریائی کا برملا اعتراف ہے۔یوں نہیں کہ اسے ہی مقصد حیات سمجھ لو۔یوں نہیں کہ جزا کی حرص ہی پہ عمل کا دارو مدار ہو، یوں نہیں ہے کہ اس کا تقاضا صرف یہی ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال جب اس راز تک پہنچے تو فرمایا سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے زندگی کی ودیعت کردہ ساعتوں میں ،خیرو برکت اور انعام و اکرام سے بھرپور ساعتوں سے چند لمحے چُرا کر سوچئیے۔ برق رفتاری سے بدلتی ہوئی دنیا کی راہیں اجداد کے کارہائے نمایاں کے تذکروں سے نہیں تراشی جاتیں۔ زندگی اپنی خوبیوں اور خصائص پر بسر کی جاتی ہے،اپنے شاندار ماضی کے زعم میں نہیں ۔ہم عالمی حکمرانی کے خواب تو دیکھتے ہیں۔مگر غورو فکر سے عاری، پیشہ ورانہ دیانت سے نابلد ایک ایساہجوم ہیںجسے معاشرتی اخلاقیات چھوکہ نہیں گزری ۔ستم بالائے ستم ، ذکر و فکرِصبح گاہی میں مگن ، مزاجِ خانقاہی میں پختہ تر، الہیات اور کتاب اللہ کی تاویلات میں گم ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ" کاسبــ" خدا کا دوست ہے مگر عملی طور پر محنت سے جی چراتے ہیں۔ہماری خوشحالی کی اُمیدیں کسی درویش کے تعویز سے جڑی ہوئی ہیں۔عماد اظہر نے اس صورتحال کی عکاسی ان الفاظ میں کی تھی کہ اس قدر سست کہ خوشحال دنوں کی خاطر ہم نے درویش کے تعویز کو گھر میں رکھا سو زندگی کے اعلی تر مقصد کو پہچانیٔے ، خواب دیکھئے ، ایک اعلی تر حیات کے خواب ۔ ایک اعلی تر نظام کے خواب ، وہ نظام جہاں ہر میدان میں کار ہائے نمایاں کے اعزازآپ کے اجداد کے سر تھے۔ خواب دیکھیے اورتعبیر کی جستجو میں جُت جایئے۔اس کائنات کے سارے راز آپ کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں ، یہ سارے اسرار آپ پر ہی افشاں ہوں گے۔شرط صرف ریاضت اور خلوص کی ہے۔اپنی زندگی اور اپنے گردو پیش ،دونوں کو مبارک بنائیے اور آخر میں جناب افتخار عارف کی نظم کا لطف اُٹھایٔے: یہ دُنیا اک سور کے گوشت کی ہڈی کی صورت کوڑھیوں کے ہاتھ میں ہے اور میں نان و نمک کی جستجو میں دربدر قریہ بہ قریہ مارا مارا پھر رہا ہوں ذرا سی دیر کی جھوٹی فضیلت کے لیے ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں ہر قدم پر منزلِ عز و شرف سے گر رہا ہوں اور مری انگشتری پر یا علیؑ لکھا ہوا ہے مگر انگشتری پر یا علیؑ کندہ کرا لینے سے کیا ہوگا کہ دل تو مرحبوں کی دسترس میں ہے مسلسل نرغہ ء حرص و ہوس میں ہے عجب عالم ہے آنکھیں دیکھتی ہیں اور دل سینوں میں اندھے ہو چکے ہیں اور ایسے میں کوئی حرفِ دُعا اک خواب بُنتا ہے کبھی سلمان ؓ آتے ہیں کبھی بوذرؓ کبھی میثمؓ کبھی قنبر ؓمری ڈھارس بندھاتے ہیں کمیلؑ آتے ہیں کہتے ہیں پکارو، افتخار عارف پکارو! اپنے مولا کو پکارو اپنے مولا کے وسیلے سے پکارو اُجیب دعوت الداع کا دعوی کرنے والے کو پکارو یہ مشکل بھی کوئی مشکل ہے دل چھوٹا نہیں کرتے کریم اپنے غلاموں کو کبھی تنہا نہیں کرتے ،کبھی رسوا نہیں کرتے