خبر ہے کہ مصر اپنی ماورائے تباہ حال معیشت کو سہارا دینے کے لئے ملک بھر سے کتے اور بلیاں پکڑ کر انہیں چین وغیرہ کو برآمد کرے گا۔ کئی ملکوں میں ان جانوروں کی بہت مانگ ہے۔لوگ بلے بلیاں اور کتے زندہ بھون کر یا زندہ جلا کر کھا جاتے ہیں۔ مصر وہ ملک تھا کہ دنیا بھر میں اس کی کپاس کی دھوم تھی۔ یورپ میں مصر ہی کی کپاس جاتی تھی۔قدیم دور میں جب رومنوں نے مصر ختم کیا تو ایک سیاح نے واپس جا کر لکھا کہ مصر وہ ملک ہے جہاں اون بھیڑ بکریوں پر سے نہیں لی جاتی بلکہ کھیتوں میں اگائی جاتی ہے۔ یورپ والوں کے لئے یہ ناقابل یقین خبر تھی چنانچہ ایک مصور کی وہ تصویر عالمی شہرت یافتہ ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ مصر میں درخت لگے ہیں اور ان درختوں پر پھلوں کی جگہ بھیڑیں اور دنبے لٹک رہے ہیں۔ خیر‘ یہ تو برسبیل تذکرہ بات آ گئی۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کپاس اور ناج برآمد کرنے والے ملک مصر کی جملہ برآمدات تباہ ہو گئیں۔ گروتھ ریٹ تحت الثری میں جاگرا اور اب بے زبان جانوروں کے قتل عام کا وسیلہ بنا کر ڈوبنے کے لئے تنکے کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ جب کتے بلیاں ختم ہو جائیں گی تو پھر کیا کریں گے۔؟ مصر کو ان حالات تک پہنچانے والے زندہ پیر کی خدمات اب پاکستان نے حاصل کر رکھی ہیں۔ چنانچہ خیر سے کپاس کی کاشت کا سوا ستیا ناس ہو گیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار دم توڑتی ٹیکسٹائل صنعت کو زندہ رکھنے کے لئے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ سلام زندہ پیر کو کیا جائے یا چاہنے والوں کو۔منفی صفر کی خیرہ کن کامیابی کا سنہرا باب تو خیر اپنی جگہ ہے ہی۔ ٭٭٭٭٭ اطلاعات ہیں کہ امریکہ جلد افغانستان سے نکل جائے گا۔ جلد نکل جانے کی خبر کئی سال پرانی ہے‘ تازہ خبر اسی کا ’’ری پرنٹ‘‘ ہے۔ خدا کرے جلد نکل ہی جائے۔ پھر کیا ہو گا؟اچھے آثار تو کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔ایک تہائی ملک پر اشرف غنی سرکار کا کنٹرول ہے اور ایک تہائی پر طالبان کا۔ایک تہائی رقبہ بنجر‘صحرائی‘ خشک پتھریلی سرزمین والا ہے چنانچہ اس پر کسی کا قبضہ نہیں اور کسی کو اس پر قبضہ کرنے کی چاہ بھی نہیں۔ امریکی فوج نکل گئی تو طالبان کے زیر قبضہ رقبے میں کچھ اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔طالبان سارے ملک پر قبضہ کر لیں گے‘یہ خدشہ کسی کو نہیں ہے‘خود طالبان کو بھی نہیں ہے۔ویسے بھی طالبان نے اتنا طویل عرصہ امریکہ سے جنگ نہیں لڑی‘ان کی جنگ افغانوں سے ہے۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا مجموعی خمیر اور ضمیر طالبان کو برداشت کر لے گا؟تاریخ بتاتی ہے کہ نہیں کرے گا۔ بہرحال خانہ جنگی کا دورانیہ تو چلے گا لیکن اس کے آخر میں جمہوریت ہی راج کرے گی۔ ٭٭٭٭٭ ٹرانسپرنسی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سال گزشتہ پاکستان میں دوائیاں بنانے والی فرموں نے 80ارب روپے کی ادویات 450ارب میں فروخت کیں۔یعنی پون ارب پر 330ارب منافع کمایا۔اسے چھوٹی سی ننھی منی ڈکیتی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دور رواں میں اس سے کہیں زیادہ بڑی ڈکیتیاں بھی بے حساب ہوئی ہیں۔ ابھی یہ پچھلے سال کا منافع ہے۔ اس سال دس فیصد قیمتیں اور بڑھی ہیں چنانچہ 2021ء کا میزانیہ ابھی آنا ہے۔ ثواب در ثواب۔ ’’آنجناب‘‘ کی خدمت میں یہ نذرانہ پیش کرنے والی حکومت کو مورد طعن ٹھہرانا خلاف انصاف ہو گا کیونکہ احباب سمیت جملہ قوم جانتی ہے کہ ’’صاحب‘‘ کے اپنے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب کے وزیر کالونیز مسمّی کاسترو نے یہ انکشاف کر کے علم طبقات الارض والوں کے جملہ طبق روشن کر دیے کہ ارتھ ڈے ’’ارتھ‘‘ کو روکنے کے لئے منایا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ ارتھ ہر دوسرے تیسرے مہینے کہیں نہ کہیں آتا رہتا ہے جس سے بڑی تباہی ہوتی ہے۔ ارتھ ڈے اسی ارتھ کو روکنے کے لئے مناتے ہیں۔ موصوف ارتھ کوئیک کا مخفف ارتھ بنا بیٹھے۔ بہرحال‘ پی ٹی آئی ایسے دانشوروں سے بھری ہوئی ہے۔کوئی دن ایسا خالی نہیں جاتا جس روز کوئی نہ کوئی بزرجمہر علوم و معارف کے ان دیکھے دریا نہ بہاتا ہو۔ خدانخواستہ ہمارا اشارہ جرمنی جاپان کی سرحدیں ملانے والی بات کی طرف نہیں ہے۔ خیر‘ یاد آیا‘ پچھلے ہی ہفتے خیبر پختونخواہ کے گورنر شاہ فرمان نے تاریخ پاکستان کے ایک پوشیدہ باب کا انکشاف یہ کہہ کر کیا کہ قائد اعظم نے 2021ء میں مسلم لیگ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان اور بھارت کو ’’کمبائنڈ‘‘ ملک بنا سکیں۔ موصوف نے یہ نہیں بتایا کہ شمولیت کس مسلم لیگ میں ہوئی؟۔ ن میں یا فنکشنل میں یا قاف میں یا ن میں سے نکلنے والی ش میں۔ موصول کی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب قائد اعظم مسلم لیگ میں شامل ہوئے‘ تب پاکستان بن چکا تھا اور اسی لئے تو قائد اعظم نے دونوں ملکوں کو ’’کمبائنڈ‘‘ کرنے کی تحریک چلائی۔ تحریک کامیاب ہوئی یا نہیں‘گورنر موصوف نے یہ نہیں بتایا۔ ٭٭٭٭٭ ایک ماہر تعلیم نے بتایا کہ ان کے ایک واقف عرصہ سے غریب گھرانوں کو خفیہ ہی خفیہ زکوٰۃ دیا کرتے تھے۔ اس سال ان کا فون آیا کہ حضرت سخت مجبور ہیں‘ اس رمضان میں زکوٰۃ نکالو تو مجھے ضرور یاد رکھنا۔ زکوٰۃ دینے والے زکوٰۃ لینے والوں کی قطار میں آ گئے۔ کون کہتا ہے کہ تبدیلی نہیں آئی۔تبدیلی آ نہیں رہی‘ تبدیلی آ چکی ہے۔