احساس محرومی کے شکار معاشرے کے باسیوں میں مزاحمت کا جذبہ پیدا ہونا فطری عمل ہے، لہذا طاقت کے بیدریغ استعمال کے ذریعے عام آدمی کے جذبات کو خوف کے تابع لایا جاتا ہے۔ طاقت کا اندھا استعمال متعدد ظلم و ستم کی داستانوں کو بھی جنم دیتا ہے لیکن تاریخ انسانی گواہ ہے کہ آخر کار معاشروں میں تبدیلی کا رجحان پھلتے پھولتے تن آور درخت بن جایا کرتا ہے جس کے بعد ایسی معاشرتی کروٹ کو زیادہ دیر روکا نہیں جاسکتا اور ریاست کو تبدیلی کی پے در پے دستک پر اپنا دروازہ کھولنا ہی پڑتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان تبدیلی کی اس کروٹ کے مراحل سے گزر رہا ہے، عوامی توقعات، تقاضے اور ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں مگر قائم ہونے والی حکومت کو اس کا ادراک نہیں، وہ تاحال سمجھتیہے کہ سستے بازاروں اور یوٹیلیٹی سٹورز کے چکر لگاتے ہوئے فوٹو سیشن کے ذریعے بات بن جائیگی لیکن ایسا اب ممکن نہیں، شعور کا جن بوتل سے باہر نکل چکا ہے اور نوجوان طبقہ حکومت کی کارکردگی جس پیمانے پر تولنے کا متقاضی ہے، اسے روکنے کیلئے وہ تمام حربے کارگر ثابت نہیں ہوسکتے جن پر ہمارے حکمرانوں اور بیوروکریسی نے 75 سال برباد کر دئیے۔ عوام کا موقف بالکل صاف اور واضح ہے، وہ ہر حال اور ہر ممکن طریقے سے عزت کیساتھ زندگی کا گزر بسر، تعلیم، صحت اور انصاف چاہتے ہیں۔ انھیں وقتی ریلف اور اس قسم کے پیکچز سے کوئی سروکار نہیں جن کا نصف اس کی تشہیر پر صرف کر دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں آٹے کے تھیلوں پر نواز شریف کی تصویر پر خوب تنقیدکیجاری ہے، ذرا غور کیجئے اس ضمن میں احتجاج عوام کر رہی ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ عام پاکستانی ایسے جھانسوں میں آ جایا کرتا تھا اور اب تنقید کے نشتر برسانا اپنا حق گردانتا ہے، افسوس مگر حکمرانوں کو اس کا ادراک نہیں۔حکمران اشرافیہ عام آدمی سے ناپسندیدگی کا عنصر اپنے آپ میں سموئے ہوئے ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جو عوام کے دکھ درد اور اس کے مداوا کی باتیں کرتے نہیں تھکتے وہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کے مصداق اپنے قول و فعل میں تضاد کے حامل ہیں۔ کوئی ایسا حکومتی چہرہ نہیں جو ماہ صیام میں مصنوعی مہنگائی کے خاتمے کیلئے بیتاب نظر نہ آتا ہو اور مصنوعی مہنگائی نے پورے معاشرے کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے، کیا کوئی ذی شعور تسلیم کرنے کو تیار ہے کہ حکومت تن دہی سے ایک مسئلے کا حل چاہتی ہو؟ درحقیقت عوام بہت کچھ بلکہ سب کچھ سمجھ چکے ہیں، ان حالات و واقعات پر ایک بات بہت آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ وطن عزیز جن حالات و واقعات سے دوچار ہے؛ احساس محرومی کے شکار معاشرہ میں ہر داستان اور مسلط پالیسوں سے تبدیلی کے مراحل کا سفر کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے فریب میں عوام شعوری منزلیں بھی طے کر ر ہے ہیں۔ روازنہ حکومتی سرپرستی میں عوامی امنگوں کو جس حد تک معدوم کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے؛ منزل کی جانب عوام کے قدم مزید بڑھتے چلے جا رہے ہیں، اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سیاسی وابستگیوں کو اس انداز میں ختم نہیں کیا جاسکتا جس طریقے سے عوام کا رخ موڑنے کی جستجو ہے۔ اس انداز فکر اور عملیت پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے، سمجھ سے بالا تر ہے کہ بانی چئیرمین پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات روکنے کیلئے تھرٹ الرٹ کو جواز بنایا گیا اور دو ہفتوں کی پابندی کو واضح کیا گیا جبکہ قوم کے بچے بچے کو علم ہے کہ آئندہ سینٹ کے 42 اراکین یعنی سینٹ کے نصف اراکین کے ناموں پر مشاورت کیلئے چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر علی گوہر اور دیگر سرکردہ رہنماؤں نے ان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کرنی ہے۔ موجودہ حکومت کو سوچنا ہوگا کہ وہ عوامی سطح پر اپنی ساکھ کیسے قائم کرسکتی ہے لیکن اس کی ساری توجہ ایک جماعت پی ٹی آئی کی ساکھ مجروح کرنے پر مرکوز ہے، کاش کوئی حکومتی ذمہ دار سوچ پاتا کہ عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کی حامی کیوں ہے؟ اگر وہ ایسا سوچیں تو ان کا بڑا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامیوں پر سارا نزلہ گرایا جاتا ہے اور یہ تک نہیں دیکھا جاتا کہ عام آدمی کے خلاف کاروائیوں کے نتیجہ میں حکومت مزید عوامی حمایت سے محروم ہو رہی ہے، گذشتہ روز بالخصوص پنجاب میں مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پی ٹی آئی کے پرامن احتجاج کے دوران جو کچھ ہوا، اس سے حکمرانوں کی سیاسی ساکھ اور جمہوری تاثر پر مزید سوالات اٹھے ہیں جبکہ حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں ۔موجودہ حکومت جانتی ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کیا ہیں، اس لیے ان حکمرانوں کو درپیش مسائل کی فکر نے ایسے طرز عمل کو اپنانے پر مجبور کر رکھا ہے جس کے باعث کام نہیں بن پارہا اور روزانہ ایک نیا ایشو ان کے پیر جمنے نہیں دے رہا، قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر گوہر ایوب نے الزام عائد کیا ہے کہ انتخابات میں دھاندلیوں پر مبینہ سہولت کاری کے عوض چیف الیکشن کمیشنر کو کینیڈا میں سفیر تعینات کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد خیال کیا جارہا ہے کہ بدلتے عوامی مزاج پر طاقت کے بے دریغ استعمال کے منفی اثرات کا حکمرانوں کو احساس ہونے لگا ہے، جس حکومت کا ویژن آئی ایم ایف سے آگے نہ بڑھنا ہو، وہ اسکے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے، تاہم احساس محرومی کے شکار ہمارے معاشرے میں فی الوقت مزاحمت اس بات پر ہے کہ جس شرح سے مہنگائی بڑھ رہی ہے، آمدن نہیں بڑھ رہی اور مادر وطن میں بھوک کا ناچ ہے لہذا تبدیلی کیلئے معاشرتی کوششمرحلہ وار مشق مسلسل کی صورت میں جاری ہے ۔