مقبوضہ کشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے حالیہ بیان ، جس میں انہوںنے کہا تھا کہ ان کی حکومت جموںوکشمیر میں نافذ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کو منسوخ کرنے اور علاقے میں تعینات فورسز اہلکاروں کی تعداد میں کمی لانے پر غور کر رہی ہے، کو گمراہ کن قرار د یتے ہوئے کہاہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل اور خطے میں پائیدار امن و ترقی کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر سے بھارتی فوجیوں کا مکمل انخلا اور تمام کالے قوانین کی منسوخی ناگزیر ہے۔حریت ترجمان نے کہا کہ بھارتی رہنما ایک طرف کالے قوانین منسوخ کرنے کی بات کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ان قوانین کا بے دریغ استعمال جاری رکھے ہیں۔ مقبوضہ کشمیرمیں اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے چیئرمین اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما عبدالصمد انقلابی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی سمیت انسانی حقوق کی دیگر بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیری قیدیوں کی حالت زار کا نوٹس لیں ۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں اور بھارتی سول سوسائٹی نیز متعدد سیاسی جماعتیں اس 'سیاہ قانون‘ کے بے جا اور غلط استعمال کی مسلسل شکایتیں کرتی رہی ہیں۔ برطانوی نوآبادیاتی دور کا یہ متنازع قانون اب بھی برقرار ہے اور اس کے تحت جموں و کشمیر میں ہزاروں سیاسی کارکنان نیز نوجوان اورعام شہری بھی جیلوں میں بند ہیں۔ بھارت کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر میں افسپا کا نفاذ 1990 میں مسلح شورش کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ اس وقت یہ قانون بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں بھی نافذ ہے۔اس قانون کے تحت فوجی یا نیم فوجی اہلکار یا پولیس کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرسکتے ہیں، کسی بھی رہائشی اور تجارتی عمارت پر دھاوا بول سکتے ہیں اور کسی بھی شخص کو شبہ کی بنیاد پر بغیر عدالتی سماعت کے حراست میں رکھ سکتے ہیں۔اس قانون کی اہم بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق شکایات کی عدالتی سماعت بھارتی حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران فوج اور نیم فوجی اداروں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق سینکڑوں شکایات درج کی گئی ہیں۔ یہ شکایات اغوا کے بعد قتل، خواتین پر جنسی تشدد اور ٹارچر سے متعلق تھیں۔ تاہم ابھی تک ایک بھی کیس میں کسی ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا نہ کسی کو سزا ہوئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ افسپا کے سیکشن 7 کے تحت مقامی حکومت یا عدالت کسی بھی فوجی کے خلاف بھارتی حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ 2019ء میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’افسپا جموں و کشمیر میں جوابدہی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔حالانکہ 2015ء میں جب کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے درمیان جموں و کشمیرمیں مشترکہ حکومت بنانے کے لئے معاہدہ ہوا تو معاہدے میں بی جے پی نے افسپا کو بتدریج ہٹانے پر اتفاق کرلیا تھا تاہم بعد میں اس معاہدے کے خالق اور بی جے پی کے جنرل سیکرٹری رام مادھو نے کہا کہ پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ساتھ اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’افسپا کو کسی تفریح کے لئے نافذ نہیں کیا گیا (کہ اسے یونہی ہٹایا جائے)۔ کئی برس پہلے جب اس وقت کی پی ڈی پی حکومت کے وزیراعلیٰ مفتی سید نے بھی افسپا کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تو اْس وقت کے ایک اعلیٰ فوجی افسر لیفٹینٹ جنرل بی ایس جیسوال نے کہا تھا کہ ’افسپا اِز اے ہولی بْک‘ یعنی ’افسپا ایک مقدس کتاب ہے۔اس کے بعد 2008 میں عمرعبداللہ وزیراعلیٰ بن گئے تو انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ کم از کم سرینگر، جموں اور ایسے دیگر شہروں سے یہ قانون ہٹایا جائے جو اب پرامن ہیں۔ اْس وقت کے وزیرداخلہ پی چدامبرم نے اس تجویز پر اتفاق بھی کرلیا تھا۔ تاہم بھارت کی وزارت دفاع کی مخالفت سے یہ معاملہ پھر ایک بار سرد خانے میں چلا گیا۔ افسپا کی حمایت کرنے والے اداروں کا موقف ہے کہ فوج کے پاس کورٹ مارشل کی شکل میں باضابطہ اندرونی نظام موجود ہے اس لئے کسی بھی خلاف ورزی کے لیے فوج پہلے سے جوابدہ ہے تاہم تین دہائیوں سے جتنی بھی شکایات سامنے آئی ہیں انھیں مناسب شواہد نہ ملنے کی بنا کر مسترد کیا جاتا رہا ہے۔ 2005 میں کشمیر کے پتھری بل علاقے میں فوج نے پانچ شہریوں کو ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کرکے انھیں غیرملکی دہشت گرد قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے 2000میں مارچ کے مہینے میں چھِٹی سنگھ پورہ میں درجنوں سِکھ شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔تاہم ان کی شناخت کے بعد جب انکشاف ہوا کہ وہ عام شہری ہیں تو وادی میں احتجاج کی لہر پھیل گئی اور اْس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے اس معاملہ کی تحقیقات بھارت کی وفاقی ایجنسی سی بی آئی سے کروانے کا اعلان کیا۔دو سال بعد سی بی آئی نے فوج کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تو فوج نے یہ کہہ کر اسے غیرقانونی قرار دیا کہ اس کے لئے بھارتی حکومت کی پیشگی اجازت حاصل نہیں کی گئی۔معاملہ جب سپریم کورٹ میں چلاگیا تو عدالت عظمیٰ نے فوج کو یہ آپشن دی کہ وہ یا تو عدالت میں مقدمہ چلنے دیں یا پھر ملزموں کا کورٹ مارشل کریں۔فوج نے کورٹ مارشل کا انتخاب کیا اور بعد میں اعلان کیا کہ پیش کیے گئے سبھی ثبوت اور شواہد ناکافی ہیں اس لئے کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔