اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل بھی اسرائیل کی ان بستیوں کو غیر قانونی اور ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے انٹرنیشنل لا سے متصادم قرار دے چکی ہے۔ یورپی یونین کے وینس ڈیکلیئریشن میں بھی اسرائیل کی ان بستیوں کو انٹر نیشنل لا کی خلاف ورزی قرار دیا جا چکا ہے۔ یورپی یونین نے 2012 ء میں بھی اسی موقف کا اعادہ کیا۔امریکہ کا موقف اس پر تبدیل ہوتا رہا۔ 1978ء میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے لیگل ایڈوائزر نے ان بستیوں کو انٹر نشینل لا کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ بعد میں صدر ریگن نے کہا کہ یہ غیر قانونی نہیں ہیںتاہم 2019ء میں اقوام متحدہ نے اپنی آفیشنل ویب سائٹ پر یہ موقف دیا کہ '' اقوام متحدہ اسرائیلی بستیون پر امریکہ کے تازہ موقف پر اظہار افسوس کرتی ہے۔ ۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ: کسی ایک ریاست کی پالیسی پوزیشن میں تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ انٹر نیشنل لا تبدیل ہو گیا ہے۔ نہ ہی اس سے عالمی عدالت انصاف اور سیکیورٹی کونسل کی جانب سے کی گئی انٹر نیشنل لا کی تعبیر پر کوئی فرق پڑتا ہے۔چنانچہ برطانیہ، فرانس، بلجیم، جرمنی اور پولینڈ نے مشترکہ بیان جاری کیا کہ '' اسرائیل کی یہ تمام بستیاں ناجائز ہیں اور انٹر نیشنل لا کی خلاف ورزی ہیں۔ روم سٹیچیوٹ کے آرٹیکل 8 کی ذیلی دفعہ 2 بی کے مطابق قابض قوت اگر اپنے شہریوں کو مقبوضہ علاقے میں منتقل یا آباد کرتی ہے تو اس کا یہ فعل جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔اسرائیل نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے خود ایک کمیشن بنایا ۔ اس کمیشن نے 2005ء میں ایک رپورٹ جاری کی۔ اس کمیشن کی سربراہی تالیہ سیسن کر رہی تھیں اس لیے اسے سیسن رپورٹ کہا جاتا ہے۔ تالیہ سیسن تل ابیب یونیورسٹی میں قانون پڑھاتی رہیں۔ اس رپورٹ میں مغربی کنارے میں قبضے کر کے بنائی گئی بستیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: 1.جن آبادیوں کو Outposts کہا جاتا ہے اور جن کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ یہ اسرائیل کی اجازت کے بغیر بن جاتی ہیں، یہ اصل میں اسرائیلی حکومت کے تعاون سے بنتی ہیں۔ 2.اس تعاون میں وزارت دفاع، وزارت ہاوؤسنگ ایند کنسٹرکشن، اور عالمی صہیونی تنظیم ورلڈ زایونسٹ آرگنائزیشن شامل ہیں۔ 3.یہ آبادیاں قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ 4.قانون کی یہ خلاف ورزی رکی نہیں بلکہ جاری ہے اور یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ 5.ہاؤسنگ منسٹری نے فلسطینیوں کی نجی ملکیتی زمین پر ناجائز آبادی قائم کرنے کے لیے سینکڑوں موبائل گھر بنا کر دیے۔ 6.وزارت دفاع نے ان کا اجازت نامہ دیا۔ 7.وزارت تعلیم نے یہاں تعلیم کے لیے نرسریاں بنائیں اور اساتذہ فراہم کیے۔ 8.انرجی منسٹری نے یہاں بجلی فراہم کی۔ 9.ان آبادیوں تک پہنچنے کے لیے قومی خزانے سے سڑکیں بنائی گئیں۔ اس رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سیٹلمنٹس ہوں یا آؤٹ پوسٹس، یہ صرف اصطلاحات کا فرق ہے، عملاً دونوں طرح کی بستیاں اسرائیلی حکومت کی اجازت اور تعاون ہی سے بنتی ہیں۔ یہ نکتہ صرف سیسن رپورٹ ہی میں بیان نہیں کیا گیا بلکہ یہ اسرائیل کی تزویراتی پالیسی کا ایک حصہ ہے کہ فلسطین کے علاقے میں جہاں جس یہودی کو قبضے کا موقع ملے وہ قبضہ کر لے تا کہ فلسطینی علاقے کا تسلسل ختم ہو اور اس کی وحدت مجروح ہو اور مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کا امکان تک نہ رہے۔ بلکہ بیچ میں جگہ جگہ یہودی بستیاں بن چکی ہوں۔شیرون نے، بطور اسرائیلی وزیر خارجہ، اسرائیلی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہر ایک کو آگے بڑھنا بھاگنا اور فلسطین کی زمین پر پہاڑوں کی جتنی چوٹیوں پر ممکن ہو قبضہ کر لینا چاہیے تا کہ یہودی آبادیاں پھیل سکیں۔شیرون کے مطابق یہ ناجائز آبادکاری اسرائیل کی تزویراتی ضرورت تھی۔ بین الاقوامی قانون اس بارے میں بہت واضح ہے کہ ان علاقوں میں اسرائیل کا قبضہ ناجائز ہے، یہ علاقے اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں اور یہاں قائم اسرائیلی کی آبادیاں انٹر نیشنل لا کی خلاف ورزی ہیں اور جنگی جرائم میں شمار ہوتی ہیں۔حیرت ہوتی ہے جب آج کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حالیہ جنگ کا آغاز فلسطینیوں کی جانب سے ہوا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ان پر کئی دہائیوں سے ایک جنگ مسلط ہے۔ ان کے علاقے چھینے جا چکے۔ انہی واپسی کا وہ حق نہیں دیا جا رہا جو بین الاقوامی قانون میں مسلمہ ہے۔ ایک ناجائز ریاست بنا کر اقوام متحدہ نے اسے تسلیم کر رکھا ہے لیکن فلسطین نام کی اصلی جائز اور حقیقی ریاست کو اقوام متحدہ نے آ ج تک تسلیم نہیں کیا۔فلسطینی اپنے ملک سے محروم کر دیے گئے۔ ان کی آزادی چھن چکی۔ ان کی عزت محفوظ نہیں۔ ان کے خلاف جنگی جرائم ہو رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ کئی عشروں سے ہو رہا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کبھی ختم ہوئی ہی نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔جب تک جارحیت برقرار رہتی ہے اور مقبوضہ جات آزاد نہیں ہوتے تب تک جارحیت کے خلاف مزاحمت بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ایک جائزعمل ہے۔یہ مزاحمت اس فسطائیت کا نتیجہ ہے جس کا فلسطینی کئی دہائیوں سے شکار ہیں۔ یہ کوئی نئی لڑائی نہیں کہ فسلطینیوں کو پہل کرنے کا طعنہ دیا جائے۔امر واقعہ یہ ہے کہ فلسطینیوں نے پہل نہیں کی۔ فلسطینیوں سے طویل صبر اور بے بسی کے بعد ، اس مسلسل جارحیت کے خلاف جزوی رد عمل دیا ہے ۔ اس کے نتائج یقیناً دل دہلا دینے والے ہیں لیکن اس سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا کیا وہ دل دہلا دینے والا نہیں۔ فلسطینی تو روز اول سے اسی وحشت کا شکار ہیں۔ اس بار صرف یہ ہوا ہے کہ سوشل میڈیا نے اسرائیلی وحشت کے مظاہر دنیا میں پھیلا دیے ہیں اور اب کچھ بھی اوجھل نہیں رہا۔معاملات دنیا میں خدا کی ایک سنت ہے۔ اس کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے جس کا تعلق ما بعد الطبیعات سے ہوتا ہے۔ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ یہ کسی نئے باب کا انتساب ہے۔ اس نئے باب کو ہم میں سے کون دیکھ پاتا ہے یہ الگ بات ہے۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ وقت کا موسم کبھی یکساں نہیں رہتا۔ اس نے بدلنا ہی بدلنا ہے۔ آ ج نہیں تو کل۔ ( ختم شد) ٭٭٭٭٭٭