سید شفقت علی شاہ(مرحوم) سرکاری ملازم تھے اور پارٹ ٹائم جرنلسٹ بھی تھے۔وہ شورش کاشمیری(مرحوم) کے رسالہ ’’چٹان‘‘ میں’’آنکھیں میری باقی ان کا‘‘ کے عنوان سے ایک شگفتہ کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ ان کا تعلق ملازمین کی اس ایماندار Speciesسے تھا جو بڑی تیزی سے معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ میرے برادرِ نسبتی کے سسر تھے اور خاندانی تقریبات میں ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی۔ انہوں نے کسی زمانے میں روزنامہ ’’کوہستان‘‘ میں چھپنے والے میرے ابتدائی دور کے کالم پڑھ رکھے تھے۔ ان کالموں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔ میں یہ سن کر خوش ہو جاتا تھا۔ اس حوالے سے ہم دونوں میں ادبی دوستی بھی تھی، اگرچہ وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑے تھے۔ 1974ء میں جب ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی میں گورنمنٹ کالج لاہور میں لیکچرار تھا۔ وہ مجھے پروفیسر صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔(ویسے آپس کی بات ہے، لیکچرار روز اول ہی سے پروفیسر کہلوانے لگتا ہے اور یوں احساسِ کمتری سے بچا رہتا ہے) یہ واقعہ جو میں لکھنے لگا ہوں، شفقت علی شاہ صاحب کی ذات کے حوالے سے ہے۔ جب بھٹو صاحب نے اتفاق فونڈری کو نیشنلائز کیا، تو گورنمنٹ کو ایک ایماندار شخص کی ضرورت پڑی جسے اتفاق فونڈری کا مینجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا جا سکے۔ بھٹو صاحب نے ایماندار شخص کو ڈھونڈنے کا کام جناب حنیف رامے(مرحوم) کے سپرد کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ کام وزارتِ صنعت ہی کے کسی شخص کو دیا جا سکتا تھا؛چنانچہ رامے صاحب نے بڑی تگ و دو کے بعد پتہ چلا لیا کہ انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایماندار شخص موجود ہے۔ جس کا نام سید شفقت علی شاہ ہے اور وہ ڈپٹی ڈائریکٹر(انڈسٹریز) کے عہدے پر کام کر رہا ہے، یہ بھی پتہ چلا کہ یہ افسر نہ صرف ایماندار ہے بلکہ محنتی اور لائق بھی ہے۔ رامے صاحب کے لیے یہ سب انتہائی حیران کن تھا؛چنانچہ انہوں نے اپنے ذرائع سے مزید اطمینان کرنے کے بعد شفقت شاہ کا نام بھٹو صاحب کو پہنچا دیا اور پھر شاہ صاحب اتفاق فونڈری کے ایم ڈی مقرر ہو گئے۔ شاہ صاحب کو یہ اہم ذمہ داری سونپنے کے بعد جو ہدایت نامہ ملا اس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ فونڈری سے ایک چڑیا بھی اڑ کر باہر نہ جائے۔ شاہ صاحب نے فون پر رامے صاحب کو بتایا کہ آپ کی ہدایات پر من و عن عمل کیا جائے گا، البتہ آپ چڑیا والے فقرے پر نظرثانی فرمائیں۔ رامے صاحب نے ہنس کر کہا اچھا یوں کر لیں کہ ایک سوئی بھی فونڈری سے باہر نہ جائے۔ شاہ صاحب کو یہ بات پسند آئی کیونکہ سوئی بھی لوہے کی بنی ہوتی ہے اور فونڈری میں ہر کام ’’لوہے توڑ‘‘ ہوتا تھا۔ فونڈری پر قبضے کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ایک شام جب فونڈری کے تمام ملازمین گھر جا چکے تھے، پولیس اور افسروں کی بھاری نفری نے اچانک حملہ کر کے فونڈری پر قبضہ کر لیا۔ یہ لوگ فونڈری میں یوں گھسے جیسے بعد میں پرائم منسٹر ہائوس میں بھٹو صاحب اور کئی سال بعد میاں نواز شریف کو قابو کرنے کیلئے فوجی افسر گھسے تھے۔ واقعی تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے۔ فونڈری پر قبضہ ہونا شریف فیملی کے لیے پیغامِ مرگ تھا۔ اتفاق فیملی کے تمام معاملات میاں شریف کے ہاتھ میں ہوتے تھے۔ لہٰذا ان کے لیے سب سے زیادہ صدمے کی بات تھی۔ میاں صاحب نہایت ذہین و فطین انسان تھے۔ مشکلات سے گھبرانے کے بجائے کوئی نہ کوئی بچنے کی صورت نکال لیا کرتے تھے اور یوں نقصان کو کم سے کم کر لیا کرتے تھے۔ سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیاکہ شفقت شاہ صاحب کے ہوم ایڈریس کا پتہ کیا۔ شاہ صاحب کی رہائش گلبرگ مین مارکیٹ کے قریب تھی(انکی اولاد اب بھی اس گھر میں رہتی ہے) میاں صاحب نے گہری سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ خود ہی شاہ صاحب سے ملاقات کی جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ فونڈری میں میاں صاحب کے کئی سیف تھے جن میں جائیدادوں کی رجسٹریاں، چیک بکس، ضروری کاغذات، زیورات، چابیوں کے گچھے وغیرہ تھے۔میاں صاحب چاہتے تھے کہ کسی طرح ان اشیائ، کو حاصل کر لیا جائے اور پھر ایک روز رات گیارہ بجے کے قریب جب شاہ صاحب سونے کی تیاری کر رہے تھے، کسی نے دروازے پر لگی کال بیل کے ذریعے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ یہ صاحب میاں محمد شریف(مرحوم) تھے جو اپنی کار پر نہیں بلکہ رکشے پر تشریف لائے تھے۔ جسے انہوں نے رکشے سے اترتے ہی فارغ کر دیا تھا۔ رکشے پر آنے کی وجہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ شاہ صاحب پنجاب کے سرکردہ صنعتی حضرات میں سے اکثر کو پہچانتے اور چند ایک کو اچھی طرح مانتے بھی تھے۔ میاں صاحب کو دیکھتے ہی وہ پہچان گئے اور پھر دونوں حضرات ڈرائنگ روم میں جا بیٹھے۔ ’’کیسے آنا ہوا میاں صاحب‘‘ شاہ صاحب نے پوچھا۔ ’’شاہ صاحب! ایک درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں‘‘ ’’فرمائیے‘‘ ’’آپ آلِ نبیؐ ہیں، اولاد علی ہیں، امت کے لیے محترم ہیں، ہم گناہگاروں کو یہاں بھی اور آگے بھی آپ ہی کا سہارا ہے۔ پنجتن کے صدقے مجھ پر ایک مہربانی فرما دیں۔‘‘ ’’کہیے‘‘’’قبلہ شاہ صاحب، حکومت نے میری فونڈری کو قومیا لیا ہے۔ یہ حکومت کا اختیار ہے، مجھے اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں، لیکن فونڈری کے اندر دو تین سیف(Safe)ہیں جن میں رجسٹریاں، ضروری کاغذات، پرانے ریکارڈ، چیک بکس اور زیورات ہیں۔ ظاہر ہے یہ میری چیزیں ہیں جن کا فونڈری سے کوئی تعلق نہیں،آپ مہربانی فرمائیں اور یہ چیزیں میرے حوالے کر دیں۔ میں زندگی بھر آپ کا شکر گزار رہوں گا۔‘‘ ’’میاں صاحب!حکومت کا حکم ہے کہ ایک سوئی بھی فونڈری سے باہر نہ جائے۔ میرے خیال میں اگر میں یہ چیزیں آپ کے حوالے کر دوں تو بددیانتی ہو گی۔‘‘’’شاہ جی! میں بچپن سے ’یا علی مدد‘ کے الفاظ سنتا آ رہا ہوں۔ آج میں نے سچے دل سے ’’یا علی مدد‘‘ پکارا ہے۔ آپ کو علی کا واسطہ، میری مدد فرمائیں۔ یہ بددیانتی نہیں ہے۔ حکومت ان چیزوں کو لے سکتی ہے نہ لینا چاہے گی۔ یہ میری ذاتی ملکیت ہیں۔ مجھے واپس کر دیں‘‘ یہ کہتے ہوئے میاں صاحب کی آواز بھرا گئی۔ قارئین کرام! شاہ صاحب سے قریبی رشتہ داری اور ایک ادبی تعلق ہونے کی بنا پر اکثر ان سے ملاقات رہتی تھی اور یہ تفصیلات انہی کے حوالے سے ہیں۔ ہاں تو قصہ مختصر شاہ صاحب پنجتن پاک کے واسطے کو نظرانداز نہ کر سکے اور پھر ایک روز نمازِ فجر کے تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب فونڈری پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر بعد میاں شریف بھی آ پہنچے۔ شاہ صاحب کی نگرانی میں انہوں نے وہ تمام اشیاء گاڑی میں رکھیں اور شاہ صاحب کا شکریہ ادا کر کے رخصت ہو گئے۔ میاں صاحب قسمت کے دھنی تھے۔ فونڈری میں پڑی ہوئی قیمتی اشیاء شاہ صاحب نے اور بعد ازاں اتفاق فونڈری ضیاء الحق نے واپس کر دی۔ میاں صاحب تاجر تھے۔ صرف اشیاء ہی نہیں بلکہ انسانوں کی خرید و فروخت کے ماہر بھی تھے۔ ان کا فلسفہ تھا کہ ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ یہی فلسفہ انہوں نے اپنی اولاد میں بھی منتقل کیا لیکن شاہ صاحب سے معاملہ طے کرتے وقت انہیں یقینا احساس ہوا ہو گا کہ بعض انسانوں کی قیمت نہیں ہوتی۔ مرحوم شفقت علی شاہ ایک ایسے ہی انسان تھے۔