معین بھائی ( معین نظامی) نے سوال اٹھایا: کیا کسی زبان میں کسی زمانے اور علاقے کے اثر انگیز موذنوں کا کوئی عمومی یا خصوصی تذکرہ موجود ہے ؟ اور یادوں کی طرف ایک دریچہ کھل گیا۔سامنے اپنا گائوں ہے اور گائوں میں چاچا گل محمد اذان دے رہا ہے۔ کیا نظامی صاحب یہ سن رہے ہیں؟ یہ ان وقتوں کی بات ہے جب انگریزی انگریزوں کے لہجے میں اور عربی عربوں کی طرح بولنے کا فیشن رائج نہیں تھا۔چاچا گل محمد اپنے مقامی لہجے میں اذان دیتا اور مٹی کا سوز فضا میں پھیل جاتا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں معلوم تھا خدا کو عربی لہجہ ہی مطلوب ہوتا تووہ سب کو عرب میں پیدا کر دیتا۔ وہ جانتے تھے کہ جب خدا نے ہمیں پنجاب میں پیدا کیا تو خدا کی عربی مقامی لہجے میں بولنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ سارے لہجے خدا کی مخلوق کے لہجے ہیں اور یہ دنیا کا حسن۔ انگریزی انگریز کے لہجے میں اور عربی عربوں جیسی بولنا مجھے کبھی متاثر نہیں کر پایا۔ میں چاچے گل محمد کی اذان آج تک نہیں بھلا پایا۔ پنجابی میں ایک عجب سوز ہے ، غضب کا سوز ہے۔آپ پنجابی شاعری سنیں تو یہ آپ پر یوں بیت جائے گا جیسے ساون کسی جنگل پر بیت جائے۔ چاچا گل محمد ایسے ہی روایتی پنجابی سوز میں اذان دیتا تھا۔ ایک ایک لفظ انسان کی روح میں اترجاتا تھا جیسے سورج کی کرن کسی سیپ کے دل میں جا اترے۔ظہر اور مغرب کی اذان کی کیفیات ہی کچھ الگ ہوتی تھیں۔ ادھر شفق کی سرخی ڈوب رہی ہوتی تھی ادھر چاچا گل محمد کی آواز کا سوز طلوع ہو تا تھا۔یہ قیامت کی گھڑیاں ہوتی تھیں۔ رمضان اور عید کا سب سے شاندار پیکج چاچا گل محمد کی نعتیں ہوتی تھیں۔ کاش وہ نعتیں کہیں ریکارڈ ہوتیں تو میں آپ کو سنواتا کہ نعت کیسے کہی جاسکتی ہے۔ قاری وحید ظفر قاسمی صاحب کے بعد اگر کسی نے نعت پڑھی ہے تو وہ ہمارا چاچا گل محمد تھا۔ وہ مسجد کا سپیکر آن کر دیتے اور نعت پڑھنے لگ جاتے۔ ان کی آواز میں برگد کی بانسری جیسا سوز تھا۔ میں نے گلیوں میں چلتے اور بیٹھکوں میں گپیں لگاتے لوگوں کو ان کی نعت پر روتے دیکھا ہے۔ چاچا گل محمد بہت غریب آدمی تھے، مسجد کے سپیکر سے سرشام جب ان کی آواز گونجتی: ’آساں لگیاں مدینے نوں جاون دیاں، میری واری نہ آوے تے میں کی کراں‘ (مدینے جانے کی امید سے بندھا ہوں لیکن میری باری ہی نہیں آتی، میں کیا کروں) اور آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ اردو، پنجابی اور فارسی، جس زبان میں وہ مدحت سرکار مدینہ کہتا، حق ادا کر دیتا۔ عید گاہ میں نماز سے بہت پہلے وہ نعتیں پڑھنا شروع کرتے اور پڑھتے ہی چلے جاتے۔ سننے والے سنتے اور روتے رہتے۔ پھر ایک روز ان کا بلاوا آ یا۔ اب کی آس پوری ہو گئی۔ وہ نعت پڑھتے پڑھتے رو پڑے، میری واری نہ آوے تے میں کی کراں۔ کوئی آدمی سبب بن گیا، اس نے کہا تم بس مدینے جانے کی تیاری کرو اور پھر وہ مدینے چلے گئے۔ دہکتا ہوا سیاہ رنگ تھا ان کا، ایک بزرگ کہتے تھے: یہ عشقِ بلالی کی نسبت سے دہک رہا ہے۔ سارا گاؤں حضرت مولانا غلام نقشبند کے سامنے مودب پیش ہوتا تھا، لیکن چاچا گل محمد آتے تو نسبتِ عشقی میں مولانا خود سراپا احترام بن جاتے۔ دھریمہ ایک تاریخی گاؤں ہے۔ تاج محل میں دفن ممتاز محل کا بیٹا شاہ شجاع اسی گاؤں میں دفن ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اتنا ہی لکھا ہے کہ شاہ جہاں کی بیماری پر تخت کی جنگ میں بھائی سے شکست کھا کر شاہ شجاع بنگال اور وہاں سے اراکان یعنی میانمار کی طرف نکل گیا جہاں کے بادشاہ نے پناہ کے بہانے اس سے ساری دولت چھین لی اور اسے قتل کر دیا۔ لیکن قتل کے بعد وہ کہاں دفن ہوا تاریخ اس پر خاموش ہے۔ دھریمہ میں البتہ شاہ شجاع کی ایک قبر ہے جو حبیب سلطان نانگا کے دربار کے پہلو میں واقع ہے۔ اس قبر کے کتبے پر لکھا ہے: سلطان شجاع، پسرِ شاہ جہان، مغل شاہزادہ، تاریخ وفات 22 رمضان المبارک، 1094 ہجری۔ یعنی اس کتبے کے مطابق شاہ شجاع کی تاریخ وفات 1673 عیسوی میں ہوئی۔ عمومی طور پر شاہ شجاع کی وفات کا سال 1661سمجھا جاتا ہے۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ شاہ شجاع قتل نہ ہوئے ہوں بلکہ فرار ہو گئے ہوں اور انہوں نے زندگی کے آخری سال حبیب سلطان نانگا کی درگاہ پر گزارے ہوں؟ کچھ آثار ہیں جو بتاتے ہیں کہ اس گاؤں کو کسی شاہ یا شاہ زادے سے کہیں کوئی نسبت رہی ہے۔ رمضان کا آخری عشرہ آتا ہے تو بڑے بڑے نقارے جمع کیے جاتے ہیں اور اس دربار کے ساتھ ایک جگہ پر ظہر سے عصر تک انہیں بجایا جاتا ہے۔ بچپن میں ہم بڑے شوق سے یہ نقارے دیکھنے جایا کرتے تھے۔ یہ ویسے ہی قدیم نقارے ہیں جو ہمیں تاریخی ڈراموں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کئی سال ہو گئے، چلم بھرتے ایک ملنگ نے بتایا تھا کہ رمضان المبارک میں ہی شاہ شجاع کا انتقال ہوا تھا، یہ نقارے آج تک اسی سوگ میں بجائے جاتے ہیں۔ عید کا دن آتا ہے تو صبح سویرے یہ نقارے اونٹوں پر لاد دیے جاتے ہیں اور شہر سے دو تین کلومیٹر باہر عید گاہ تک یہ قافلہ نقارے بجاتے ہوئے جاتا ہے۔ کون جانے یہ رسم کہاں سے شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ یہ مگر ایک حقیقت ہے کہ اونٹوں اور نقاروں کا یہ قافلہ جب تک عید گاہ نہیں پہنچتا، عید کی نماز کھڑی نہیں ہوتی۔ سحر و افطار امیر علی دارو کٹ کے گولے سے ہوتا تھا۔ مسجد کے سپیکر سے چاچا گل محمد کی آواز آتی تھی، ’امیر علی اللہ نوں یاد کر کے گولا چلا دے، چلا دے گولا‘۔ اور ہر دم مستعد امیر علی کا گولا اگلے ہی لمحے چل جاتا تھا۔ اس گولے کی آواز دور کے چکوں اور گاؤں تک پہنچتی تھی اور ان کا سحر و افطار بھی امیر علی کے گولے کے انتظار میں ہوتا تھا۔ ایک بار امیر علی کو گولا چلانے میں تاخیر ہو گئی۔ یہ گرمیوں کا افطار تھا۔ مسجد سے اعلان ہوا کہ ’امیر علی اللہ دا ناں لے کے چلا دے گولا‘ اور امیر علی کا گولا نہ چلا، کھجور ہمارے ہاتھ میں، وقت بھی ہو چکا لیکن سب گولے کے انتظار میں کہ گولا چلے گا تو افطار ہو گا۔ شریفہ سے پھوپھی غلام عائشہ آئی ہوئی تھیں، بڑی دبنگ قسم کی چودھرانی تھیں، میں نے کہا پھپھی جی امیر علی اور اس کے گولے کو چھوڑیں، وقت ہو گیا ہے افطار کر لیں۔ ان کے پاس ’کھونڈی‘ پڑی تھی انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ خبردار گولے سے پہلے کسی نے افطار کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اسی لمحے امیر علی کا گولا بھی چل گیا ورنہ امیر علی کے گولے سے زیادہ آوازاس ’کھونڈی‘ کے برسنے کی آنی تھی، کیونکہ میں گولے سے پہلے افطار کر چکا تھا۔ مجھے تو یہ سب یاد ہے۔ کیا کچھ کچھ معین بھائی کو بھی یاد ہے؟