امجد صابری سادگی‘ شرافت اور ایمانداری کا پیکر تھے۔ اتنے پیارے دوست کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہاری زندگی کی بڑی محرومی کیا ہے۔ تو میں بلاتردد کہوں گا ایک بڑی محرومی امجد بھائی کا بے وقت بچھڑ جانا ہے۔ ایک دن میں نے امجد بھائی سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو اتنی جلدی کیسے پہچان لیتے ہیں۔ انہوں نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولے‘ جب اللہ اور اس کے حبیبؐ سے عقیدت اور محبت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے تو اللہ پاک اپنے دوستوں کو بہت سی کنجیاں دے دیتا ہے۔ ان کنجیوں میں سے ایک کنجی دلوں کے قفل کھولنے کی بھی ہوتی ہے۔ بس یہ اسی کا کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ اگر امجد بھائی کی شخصیت کا احاطہ کرنا چاہیں تو مجھے جاذب طرف تکلم بے پایاں محبت والے انسان اور ہر مشکل میں دوستوں کے دوست تھے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ جس عقیدت اور محبت سے جس لہجے اور فریکوئنسی میں حبیب خدا کا تذکرہ کرتے ہیں وہی محبت درحقیقت میرے لئے ایک معجزہ ہے‘ کیونکہ ان کی شان کا تذکرہ دلوں کے قفل توڑ کر انسان کی ذات میں رچ جاتا ہے بس جاتا ہے۔ امجد بھائی سے میری محبت کی ایک وجہ ان کے والد اور چچا سے میری بے پایاں عقیدت تھی۔ جناب غلام فرید صابری کی وفات پر میں نے اپنی یادوں کے حوالے سے جو مضمون لکھا اس پر میں اے پی این ایس ایوارڈ کا حقدار بھی ٹھہرا۔ یہ ایوارڈ میرے لئے اس لئے بڑا اہمیت کا حامل تھا کہ میں نے سمجھ لیا کہ یہ اس عظیم انسان کی مجھ سے محبت کا ایک حقیر سا نذرانہ تھا۔ جب بھی میں صابری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا نہ جانے کیوں رسالتؐ کی حیات طیبہ کے دو واقعات فوراً آنکھوں میں اتر آتے۔ صحابیؓنے فرمایا ’’جب بھی ہم رسول اللہؐ کی محفل میں بیٹھتے ہیں ہم میں سے ہر شخص کو محسوس ہوتا ہے جیسے رسول اللہؐ کی تمام توجہ مجھ پر ہی مرکوز ہے۔ وہ اس ہجوم میں صرف مجھے ہی چاہتے ہیں۔‘‘ دوسرے صحابیؓ نے فرمایا ’’جب جنگ کی شدت بڑھ جاتی‘ تلوار چلاتے چلاتے ہمارے بازو شل ہوجاتے۔ دھوپ سوئیوں کی طرح چبھنے لگتی اور موت کا خوف ہماری روحوں کو چھوکر گزرنے لگتا تو ہم فوراً نبی آخر الزماںؐ کے سایہ اقدس میں پناہ لیتے۔ ان کے پاس کھڑے ہوجاتے‘ وہ ہمیں مسکراکر دیکھتے اور پھر سارے خوف ختم ہوجاتے‘ ساری تھکن دور ہوجاتی‘ سارے حوصلے پلٹ کر واپس آجاتے‘ ہم نعرہ تکبیر بلند کرتے اور دوبارہ رزم گاہ میں کود پڑتے۔‘‘ ہاں غلام فرید صابری کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ اپنے اس عاشق کیلئے اللہ کے رسولؐ کی یہ کوئی خاص عطا ہے کہ ان سے جو ملتا ان کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر ان کا گرویدہ ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ دونوں باپ اور بیٹے کو رسالت مآبؐ کی شان میں قصیدہ گوئی کرتے جب بھی دیکھتا ان کے دل و دماغ کو اللہ کے حبیبؐ کی عقیدت میں ڈوبا پاتا تو بڑے رشک سے ان کی طرف دیکھ کر یہ سوچتا تھا کہ انہیں نہ صرف قبر میں اللہ کے محبوبؐکی زیارت نصیب ہوگی بلکہ مجھے یقین ہے کہ قیادت کے دن غلام فرید صابری اور ان کے بیٹے امجد صابری ان خوش قسمت ترین لوگوں میں سے ہوں گے جن کیلئے اللہ کے آخری نبیؐ کی شفاعت شامل حال ہوگی۔ امجد صابری ایک مرنجان مرنج انسان ہی نہیں ایک زبردست پرفارمر بھی تھے۔ قوالی کا فن ان کو ورثے میں ملا تھا۔ انہوں نے اپنے والد اور چچا کو بچپن سے ہی اس فن کے بام عروج پر دیکھا تھا۔ غلام فرید صابری کی آواز کی گونج کا قوالی کے حوالے سے پوری دنیا میں ڈنکا بجتا رہا۔ ان کی بیشر قوالیوں کا کلام اتنا معرکۃ الاآرا تھا کہ لوگوں پر وجد کا عالم طاری ہوجاتا۔ امجد صابری نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے والد کی Legacy کو آگے بڑھایا۔ نت نئے تجربے کئے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی بھر اپنے والد سے انسپائر رہے۔ ان کی آواز کی پچ بہت گہری اور اثر انگیز تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جو گاتے یا پڑھتے ان کی پذیرائی اور قبولیت کا حلقہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ قوالی اور نعتیہ کلام کے علاوہ موسیقی کے دوسرے شعبوں میں بھی انہوں نے قسمت آزمائی کی۔ ان کی جاندار آواز کی لپک نے انہیں ایک نئے اسلوب اور انداز سے متعارف کیا۔ جنرل پرویز مشرف ان کے بڑے مداح تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کے ڈی اے اسکیم ون میں وفاقی وزیر بابر غوری کی رہائشگاہ پر متعدد بار امجد بھائی کی محفل ہوتی تو جنرل صاحب اس میں بطور خاص شرکت کرتے۔ فرمائشیں کرتے اور بھرپور محظوظ ہوتے۔ امجد بھائی کی قوالیوں کی محفلوں کا شہرہ صرف ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں ان کی زبردست فین فالوئنگ تھی اور وہاں وہ اپنی پرفارمنس سے سب کو جھومنے پر مجبور کردیتے۔ زندگی کا کونسا ایسا شعبہ تھا جس میں امجد صابری کو عزت و احترام سے نہ دیکھا جاتا ہو۔ چٹ پٹے کھانوں کے بڑے شوقین تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع اور ملٹی کلر تھا۔ ریاضت کا اتنا شوق تھا کہ رات رات بھر بیٹھ کر وہ باقاعدہ مختلف کلاموں اور نت نئے انداز سے پڑھنے کا ریاض کرتے۔ امجد بھائی کو رخصت ہوئے پانچ برس بیت گئے‘ لیکن کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں کہ ان کے دوستوں نے ان کو یاد نہ رکھا ہو۔ مجھے تو اس دن ان سے محبت کرنے والوں کا اندازہ ہوا تھا جب ان کے جنازے میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کے چیدہ چیدہ جنازوں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں لاکھوں مداح امجد بھائی کو اپنا آخری سلام اور عقیدت کے پھول نچھاور کرنے پاپوش نگر کے قبرستان میں ان کی آخری آرام تک آئے تھے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اس عاشق رسولؐ کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)