وہ بھی کتنا کٹھن لمحہ تھا۔ ایک ایسا انسان جس کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ ہر ایک کو جینے کا سلیقہ سکھاتی تھی۔ اس کی ہر دلعزیزی کے بھی کیا کہنے جو اس سے ملتا اس کا گرویدہ ہوجاتا۔ میرا تو وہ دوست تھا۔ جتنا وہ سچا دوست تھا اتنا ہی کھرا انسان تھا۔ اتنا نرم و گداز دل رکھنے والا اتنی شیریں گفتگو کرنے والا جس کی بانہیں ہر ایک سے محبت اور اخلاص کیلئے وا رہتیں۔ کتنے لوگ بتاؤں جن پر اس نے اتنے احسانات کئے تھے۔ میں جانتا ہوں جن کے بوجھ سے ان کی گردن سیدھی نہیں ہوسکتی۔ میں اپنا تجربہ بتاؤں تو انہوں نے اتنی محبت و عزت نچھاور کی جتنی چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کرسکتا ہے۔ ایسی محبت بانٹنے والا جس کے آگے نہ آنکھ اٹھی نہ زبان کھلی۔ سچ مچ وہ انسپائریشن کا سمبل تھا۔جس کو دیکھ کر یہ حقیقت سمجھ آئی کہ کسی انسان کو اپنی صلاحیت اور اہلیت کا ادراک بتدریج کیسے ہوتا ہے۔ وہ اپنے لیے کیسے راستہ بناتا ہے۔ اسے معلوم تھا بند دروازے کیسے کھولے جاتے ہیں۔اس سے قلبی لگاؤ رکھنے والا ہر کوئی جانتا ہے کہ اپنے فن میں وہ کیسے یکتا بنتا۔ اس کی ریاضت‘ محنت اور لگن وہ اسی قوت کے ساتھ شہرت و عزت کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر سوار تھا۔ کہ ہم جیسے لوگ اسے دیکھ کر رشک کرتے تھے۔ لوہے سے سونا کیسے بنایا جاتا ہے، اسے دیکھ کر خود بخود سمجھ آجاتا ہے۔ اس کیلئے یہ بے شمار محبتیں اور لاتعداد دعائیں تھیں کہ ان کی آواز کی لپک‘ سوز‘ ادائیگی کا والہانہ پن وہ جو کہتا جو پڑھتا اس کی آواز کی چیخ احساس دلاتی تھی کہ وہ جیتے جاگتے انسانوں کو سرکارؐ کی عظمت‘ ان سے عقیدت کا سبق پڑھارہا ہو۔ وہ سچا عاشق رسولؐ تھا۔ وہ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضری سے پہلے اس کے حبیبؐ کی کرم و شفاعت کا طلبگار رہتا۔وہی رب جس کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ جس کو سب خبر ہے کہ کس نے کب کہاں اور کیا کرنا ہے۔ جب بھی کوئی اس کی آواز کی تعریف کرتا تو وہ یوں جھٹ بول پڑتا کہ یہ کام خدا نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ وہ جن الفاظ اور آواز کو چاہے مبارک کردے۔ جب تک الفاظ اور آواز کو دلوں تک پہنچنے کا حکم نہیں ہوتا‘ تیر کی طرح سینوں میں اترنے کا حکم نہیں ہوتا۔ یہ سب اسی مولا کا کمال ہے۔ اتنا مطمئن شخص میں نے اپنی زندگی نہیں دیکھا۔ جب بھی بات ہوتی شکر الحمدللہ سے شروع ہوکر شکر الحمدللہ پر ختم ہوتی۔ اپنا گھر ہے‘ گاڑی ہے‘ عزت ہے‘ معقول آمدنی ہے‘ گھر میں کوئی بیماری نہیں‘ کوئی مشکل و مصیبت نہیں‘ اللہ کی ان نعمتوں کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ میں نے انہیں کبھی بھی ممتاز ہونے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا۔ عجز و انکسار ان کی شخصیت کا نکھار تھا۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرتے۔ طنز و مزاح کو بھی انجوائے کرتے‘ لیکن کبھی بھی ان کی زبان سے کسی کی دل آزاری کرتے نہیں دیکھا۔ کبھی چہرے پر سنجیدگی طاری نہ کرتے‘ لیکن گفتگو میں دانش‘ عقل اور فہم جھلکتی نظر آتی۔ اس لئے آخر تک انہوں نے زندگی کو انجوائے کیا۔ کہتے تھے زندگی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ وہ لوگ بڑے بیوقوف ہوتے ہیں جو چمکتی دوپہر میں رات کے اندیشے سے کانپتے رہتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو ہر ایک کی مدد کیلئے ہمیشہ آمادہ رہتا۔ ہر وقت مسرور دکھائی دیتا‘ قہقہے لگاتا۔ یہاں تک کہ لطیفے سنتے بھی تھے اور سناتے بھی تھے۔ عموماً کہتے جب تک انسان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش رہتی ہے وہ مر نہیں سکتا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ان کے اندر زندگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انگ انگ سے نشر ہوتی تھی۔ ایک ایک لفظ سے جھلکتی تھی۔ پھر کیا ہوا۔ کس کی نظر لگ گئی۔ وہ قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ یہی رمضان کا مہینہ تھا۔ رسول اللہؐ کا عاشق روزے سے تھا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کے لئے گھر سے نکلے تھے۔ کیا کیا خواب اس کی آنکھوں میں سجے تھے۔ لیاقت آباد میں کسی دوزخی نے ان پر گولی چلادی۔ اس نے جس کسی کے کہنے پر یہ مکروہ فعل کیا۔ یقین سے کہتا ہوں آج وہ بھی اپنا سر پیٹ رہا ہوگا کہ اس نے کس نایاب ہیرے کو مار دیا۔ اس شہر کے بیچوں بیچ ایک ایسے شخص کو مار دیا گیا جن کیلئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ مرے نہیں۔ انہوں نے بس ہجرت کی ہے۔ ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہر چلے گئے۔ یہاں مردوں کو ہنسایا کرتے تھے‘ لبھایا کرتے تھے‘ اب وہاں زندوں کو رلایا کریں گے۔ امجد صابری سادگی‘ شرافت اور ایمانداری کا پیکر تھے۔ اتنے پیارے دوست کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہاری زندگی کی بڑی محرومی کیا ہے۔ تو میں بلاتردد کہوں گا ایک بڑی محرومی امجد بھائی کا بے وقت بچھڑ جانا ہے۔ ایک دن میں نے امجد بھائی سے پوچھا کہ آپ لوگوں کو اتنی جلدی کیسے پہچان لیتے ہیں۔ انہوں نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولے‘ جب اللہ اور اس کے حبیبؐ سے عقیدت اور محبت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے تو اللہ پاک اپنے دوستوں کو بہت سی کنجیاں دے دیتا ہے۔ ان کنجیوں میں سے ایک کنجی دلوں کے قفل کھولنے کی بھی ہوتی ہے۔ بس یہ اسی کا کرم ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔ اگر امجد بھائی کی شخصیت کا احاطہ کرنا چاہیں تو مجھے جاذب طرف تکلم بے پایاں محبت والے انسان اور ہر مشکل میں دوستوں کے دوست تھے۔ انہیں یقین تھا کہ وہ جس عقیدت اور محبت سے جس لہجے اور فریکوئنسی میں حبیب خدا کا تذکرہ کرتے ہیں وہی محبت درحقیقت میرے لئے ایک معجزہ ہے‘ کیونکہ ان کی شان کا تذکرہ دلوں کے قفل توڑ کر انسان کی ذات میں رچ جاتا ہے بس جاتا ہے۔ (جاری ہے)