فلسطین میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مابین ہزاروں برس پرانا تنازعہ ہے۔ تینوں ابراھیمی مذاہب کے لیے مقدس ترین شہر یروشلم کی تاریخ چار پانچ ہزار برس پرانی ہے۔ ایک ہزار برس قبل مسیح میں حضرت دائود ؑ نے اس علاقے کو فتح کر کے یہاں اپنی حکومت قائم کی۔ ان کے بعد انکے سب سے چھوٹے بیٹے حضرت سلیمانؑ نے یہاں ایک عبادت گاہ تعمیر کی جسے پہلا ہیکل یا ’’ ہیکل سلیمانی‘‘ کہا جاتا ہے۔ تعمیر کے قریب قریب ساڑھے پانچ سو برس کے بعد اہل بابل نے اس ہیکل کر تباہ کر کے یہودیوں کو شہر بدر کر دیا۔پچاس برس بعد ایران کے بادشاہ ’’سائرس‘‘ اور سکے بعد سکندر اعظم اس شہر پر قابض رہے۔ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ حضرت عمرؓ کے دور میں اس شہر کو فتح کیا۔ اس کے بعد مختلف ادوار میں یہ شہر لمبے عرصے تک مختلف مسلمان حکومتوں کی عملداری میں رہا۔ 1516 سے 1917 تک یروشلم سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد فلسطین کا علاقہ (بشمول یروشلم) برطانیہ کے تسلط میں چلا گیا۔ اگر ہم جدید تنازعہ فلسطین (یروشلم) کی بات کریں تو اس کی تاریخ 1799 سے شروع ہوتی ہے جب نپولین نے پہلی بار فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کا نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے عملی طور پر فلسطین میں پہلی ’’ صیہونی آبادکاری‘‘ 1882 میں ہوئی، جس کے تین برس بعد باقاعدہ ’’ صیہونی تحریک ‘‘ کا آغاز ہوا۔ 1896 سے 1948 کے دوران ہزاروں لاکھوں یہودیوں نے صیہوانی تحریک کے زیر اثر تمام دنیا سے اس علاقے کا رخ کیا۔ نتیجے میںان نو آبادکار یہودیوں اور وہاں کے باسی مسلمانوں (فلسطینیوں) میں اختلافات اور لڑائی بڑھتی گئی۔ بالا آخر اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین اور اسرائیل کی تقسیم کا ’’امن منصوبہ‘‘ پیش کیا جس میں یروشلم کو ایک خاص اہمیت دی حاصل تھی ۔ چونکہ یہ شہر تینوں بڑے مذاہب ( اسلام، یہودیت اور عیسائی) کے لیے بہت زیادہ اہم ہے اس لیے کہا گیا کہ اس شہر کا کنٹرول اقوام متحدہ کے پاس رہے گا۔ لیکن اگلے ہی برس 1948 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے اس مقدس شہر کے مغربی علاقے پر قبضہ کر کے اسے اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا ۔ بعد ازاں 1967 میں اس شہرکے مشرقی حصے پر بھی( شام، مصر اور اردن کو شکست دینے کے بعد) صیہونی طاقتوں کا قبضہ ہو گیا۔ 1980 میں اسرائیل میں ’’قانون یروشلم‘‘ پاس کیا گیا جس کے مطابق تمام یروشلم کو اسرائیل کی ملکیت اور دارلحکومت قرار دے دیا گیا۔ اسکے جواب میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے اسی برس اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا ( بذریعہ قرار داد نمبر 478)۔ مشرقی یروشلم میں تقریباََ چار لاکھ سے زیادہ فلسطینی مسلمان صدیوں سے بستے ہیں ۔ غاضبانہ قبضے کے بعد اسرائیل نے اس شہر کو اپنا حصہ تو قرار د ے دیا، لیکن کئی نسلوں سے آباد ان فلسطینیوں کو اسرائیل کا شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔یعنی عملی طور پر یہ مظلوم لوگ اس وقت کسی بھی ملک کے مکمل شہری نہیں ہیں۔ امریکہ میں 1995 میں ایک قانون "Jerusalem Embassy Act of 1995" پاس کیا گیا تھا جس میں امریکی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرے اور امریکی سفارتخانے کو یروشلم میں منتقل کرے۔ اس قانون میں امریکی صدر کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ چھ ماہ کے لیے اس منتقلی موخر کر سکتے ہے اور بعد میں آنے والے امریکی صدور ہر چھ ماہ بعد اس منتقلی کو موخر کرتے آئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں باقاعدہ اعلان کر دیا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ مسٹر ٹرمپ تو جا چکے لیکن بعد میں آنے والی امریکی حکومت بھی اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی لاتی نظر نہیں آتی۔ اگر ہم اس تمام تاریخ کو مد نظر رکھیں تو اسرائیل آج فلسطین میں جو کچھ کر رہا ہے وہ نہ تو حماس یا فلسطین کے خلاف کوئی فوجی کاروائی ہے اور نہ ہی یہ عرب اسرائیل تنازعہ کی کوئی نئی شکل ۔ یہ دراصل دنیا پر غلبے کی تحریک ہے۔ یہودی اپنے سب سے بڑے دشمن، یعنی عیسائیوں کو قابو کر چکے ہیں اور اب انہیں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے قیام اور دنیا پر حکمرانی کے خواب اور اسکی تعبیر کے درمیان واحد رکاوٹ صرف اسلام نظر آتی ہے ۔ عرب دنیا کہیں ذاتی مفادات کے لیے، کہیں معاشی فوائد کے لیے اور کہیں کسی خوف کے زیر اثر اسرائیل کی جھولی میں جا چکی ہے۔ اگر بڑے اسلامی ممالک کی بات کی جائے تو سعودی عرب بظاہر فلسطینیوں کی حمایت تو کرتا ہے لیکن اسکے اسرائیل کے ساتھ بھی سفارتی اور ہمدردانہ تعلقات قائم ہو چکے ہیں اس لیے سعودی عرب اپنا ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھائے گا۔ ایرانی عوام، صدر اور سپریم لیڈر فسلطین کی حمایت کے لیے یک آواز نظر آتے ہیں ۔ لیکن ماضی قریب کو نظر میں رکھیں تو لگتا نہیں کہ ایران فلسطینی عوام کے حق میں کوئی ٹھوس عملی اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس کر ے۔ ترکی کسی زمانے میں خلافت کا مرکز رہا ہے اس لیے اس کے بیانات میں اسلامی دنیا کا لیڈر بننے کی خواہش تو نظر آتی ہے لیکن پھر عملی طور پر اپنے ملک کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ یورپی یونین‘‘ کا حصہ بننے کی خواہش زیادہ غالب ہو جاتی ہے۔ اب رہ گئے ہم لوگ تو ہمارے معاشی اور سیاسی حالات ہمارے پیروں کی زنجیریں ہیں۔ موجودہ عالمی حالات میں یہ سب ’’ دیوانے کا خواب ‘‘ ہی لگتا ہے۔ صرف تقریروں اور بیانات سے کچھ ملنا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی کسی قرار داد پر جمہوریت، سچائی اور حق کی بنیاد پر کوئی عمل ہونا ہے۔ بلکہ اب تو عالم اسلام میں کھل کر بیان بازی کی ہمت بھی نظر نہیں آتی۔