فروری2021ء میںمجلس ترقی ادب کی سربراہی سے ممتاز محقق اور دانشور ڈاکٹر تحسین فراقی کو غیر آئینی طریقے سے ہٹا کر منصور آفاق کو اس اہم ترین ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا‘اس تقرری پر مختلف طبقوں کی جانب سے شدید رد عمل آیا کیونکہ ڈاکٹر تحسین فراقی کے چودہ ماہ باقی تھی‘انھیں نہ تو نوٹس دیا گیا اور نہ ہی وقت‘بزدار حکومت نے من پسند صحافی کو اس عہدے سے نواز دیا۔اس تقرری کے بعد دو طرح کا ردِ عمل سامنے آیا تھا‘ایک طرف راقم سمیت درجنوں ادیبوں کا موقف تھا کہ تقرر جس کا بھی ہو‘یہ اہم نہیں ،سوال تقرری کے طریقہ کار پرہے۔ فراقی صاحب کی ملازمت کے چودہ ماہ باقی ہیں‘وہ انتہائی سینئر ادیب اور محقق ہیں لہٰذا ان کے ساتھ یہ ناروا سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا،انھیں عہدے سے ہٹانا اور بندر بانٹ کرنا ہی مقصود تھا تو طریقہ کار تبدیل کیا جا سکتا تھا۔دوسری طرف ایک اور طبقہ تھا جن کی منصور آفاق سے محبت دیدینی تھی‘انھوں نے ہر اس شخص سے دشمنی لگالی جس نے اس تقرری کے طریقہ کار پر سوال اٹھایا تھا‘انھوں نے ڈاکٹر تحسین فراقی اور منصور آفاق کا موازنہ شروع کر دیا‘حالانکہ یہ موازنہ بنتا ہی نہیں تھا۔ یہ صورت حال اس وقت انتہائی افسوس ناک ہو گئی جب الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر فراقی صاحب کی کردار کشی کی گئی‘ان کے خلاف ٹی وی انٹرویوز دیے گئے‘کالم لکھوائے گئے اور انھیں کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اس سارے عمل میں محبانِ منصور نے انتہائی تکلیف دہ کردار ادا کیا۔ میں نے انہی دنوںفراقی صاحب سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ آپ ان الزامات کی تردید کریں اور اپنا کم از کم ایک ویڈیو انٹرویو جاری کریں،میری اس گزارش پر انھوں نے صرف اتنا کہا کہ ’میرا معاملہ خدا کے پاس ہے‘۔ اس معاملے کو نو ماہ گزر گئے تھے اور یہ سارا معاملہ تقریباً دب چکا تھا کہ گزشتہ روز اس اہم ترین ادارے میں ایک دفعہ پھر سیاسی تقرر ہوا اور گزشتہ ناظم کو وقت سے پہلے ہی عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔اس برطرفی کے بعد ایک دفعہ دوبارہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ادارے کے گزشتہ تمام سربراہان’ جھک‘ مارتے رہے‘اصل کام اِسی مردِ مجاہد کے حصے میں آیاتھا لہٰذا اس غیر آئینی تقرری کو بحال کیا جائے ۔فروری 2021ء میں منصور آفاق کی تقرری اس لیے متنازعہ بنی تھی کہ راقم سمیت درجنوں قلم کاروں کو تقرری کے طریقہ کار پر اختلاف تھا‘آج نئی تقرری پر بھی اسی لیے سوال اٹھ رہے ہیں کہ اس بار بھی طریقہ کار سیاسی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔مجلس ترقی ادب ایک اہم ترین ادبی ادارہ ہے ‘جس کی بنیاد مئی ۱۹۵۰ء میں رکھی گئی تھی(پہلا نام ’مجلس ترجمہ‘تھا) اور اس ادارے کا بنیادی مقصد اردو کے کلاسیکی ادب کی اشاعت ‘عربی فارسی اور مغربی زبانوں کی بلند پایہ کتابوں کے تراجم و متون اور اردو زبان کے اہم تحقیقی مسودات و مقالات کی اشاعت تھا۔اس ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں امتیاز علی تاج‘حمید احمد خان‘احمد ندیم قاسمی اورشہزاد احمد جیسے قد آوار ادیبوں کا تقرر رہا اور جو سراسر ادبی تھا‘انتہائی دکھ سے کہنا پڑرہا ہے کہ اردو کا یہ اہم ترین ادارہ اب مکمل سیاسی ہوچکا۔ میرا آپ سب سے بھی یہی سوال ہے کہ کیا ایسے اہم ادبی و سرکاری اداروں میں تقرر ی کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہونا چاہیے؟کیا ادبی اداروں کو سیاسی جاگیرداروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا چاہیے؟ابھی دو ماہ پہلے کی بات ہے‘حمزہ شہباز کے دور میں ایک سینئر صحافی کا تقرر ایک ادبی ادارے میں ہوا‘انھوں نے انکار کر دیا کہ میرے کام پر حرف آتا ہے۔ایسی صورت حال مستقبل میں بھی دیکھنے کو ملتی رہے گی جب تک ادبی اداروں میں تقرریوں کے عمل کو شفاف نہیں بنایا جایا گا‘جب تک ادبی و سرکاری اداروں کے تقرر کا اختیار سیاسی رہے گا‘اس پر سوال اٹھتے رہیں گے‘تنقید ہوتی رہے گی۔مجلس کی گزشتہ تقرری پر بھی یہی کہا جاتا تھا کہ نو منتخب ناظم کے تحریک انصاف کے وزیروں سے گہرے مراسم ہیں‘ان کے اعزاز میں ظہرانے و عشائیے بھی دیتے ہیں‘ عمران خان کی شان میں ایک کتاب بھی لکھی ہے‘اپنے کالموں میں بزدار کے دور کو بھی تاریخ کا ’سنہرا ترین‘ دور کہتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ انھیں مجلس کا ناظم بنا دیا گیا اور اس کے پیچھے کئی اہم وفاقی وزیروں کے نام بھی سننے کو ملے جنھوں نے اس تقرری کے لیے ہاتھ پائوں مارے تھے۔ اب نئے ناظم اصغر عبداللہ مقرر ہوئے ہیں جو ق لیگ کے قریبی قلم کاروں میں شمار ہوتے ہیں‘چودھری برادران پر ایک کتاب بھی مرتب کر چکے اوراپنے کالموں میں پرویز الٰہی کے تاریخی کارناموں کا بھی ذکر کرتے رہتے ہیں،بقول ذرائع کہ’ آپ اچھے خاکہ نگار اور ادیب ہیں‘۔مجھے پہلے بھی ان تقرریوں سے ایک ہی اختلاف تھا کہ ادبی ادارے کی تقرری سیاسی نہیں ہونی چاہیے‘ان اداروں کی سیٹیں بھی مشتہر ہوں اور باقاعدہ انٹرویو کے بعد تقرر ہو۔انٹرویو پینل میں بھی ایسے سینئر ادیبوں اور بیوروکریٹس یا پھر سیاست دانوں کو شامل کیا جائے جو کسی طرح سے بھی جانبدار نہ ہوں‘یہی واحد طریقہ ہے جس سے ادبی اداروں کی تقرری کو متنازعہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔جن اداروں کے سربراہ سفارش پربھرتی ہوں‘وہاں میرٹ کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے اور ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔لہٰذا ایک دفعہ پھر اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ تقرر جس کا بھی ہو‘وہ مکمل آئینی اور شفاف ہونا چاہیے اور اس کا طریقہ کار اوپن ہونا چاہیے تاکہ خواہش مند امیدوار اپلائی کرسکیں۔ادبی و سرکاری اداروں کی تقرری اسی لیے متنازعہ رہی کہ اس کا اختیار سیاست دانوں کے پاس ہے اور سیاست دان یہ تقرریاں کیسے کرتے ہیں‘ تاریخ دیکھی جا سکتی ہے۔مجلس ترقی ادب‘اکادمی ادبیات پاکستان‘اردو سائنس بورڈ‘ادارہ فروغِ زبان اردو‘نیشنل بک فائونڈیشن‘اردو لغت بورڈ اور انجمن ترقی اردو سمیت تمام ادبی اداروں میں تقرریوں کو شفاف بنایا جائے اور ان سب اداروں میں تقرریوں کا طریقہ کار واضح ہونا چاہیے تاکہ ہم ادب کو تو سیاست سے دور رکھ سکیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان تقرریوں پر ہمیشہ سوال اٹھائے جاتے رہیں گے اور یہ تقرریاں متنازعہ رہیں گے۔