خدا خدا کر کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ۔ صدر مملکت عارف علوی اور الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات کرانے کی تاریخ پر اتفاق کیا ہے۔ صدر اور الیکشن کمیشن وفد کا مشاورتی عمل سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہوا، بعدازاں سپریم کورٹ میں دائر 90 روز میں عام انتخابات کرانے سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آخری ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جس کو انتخابات کے ہونے پر اعتراض ہے تو وہ گھر جا کر بیوی سے بات کر لے لیکن میڈیا سے نہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے میڈیا سے بھی شکوہ کیا کہ میڈیا آزاد ہے وہ اپنا کردار ادا کرے اور ایسی چیزیں نہ پھیلائے جس سے مایوسی بڑھے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ انتخابات کے معاملے پر میڈیا پر مایوسی پھیلانے والوں کے خلاف پیمرا کے ذریعے کارروائی کریں۔ میڈیا نے شکوک وشبہات پیدا کیے تو وہ بھی آئینی خلاف ورزی کرے گا۔ آزاد میڈیا ہے اور ہم اس کو بھی دیکھ لیں گے۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ آپ نے عدالت کا دوستانہ چہرہ دیکھا ہے دوسرا چہرہ ہم دکھانا نہیں چاہتے، جس کے بعد پیمرا نے عام انتخابات کی کوریج کے لیے میڈیا کو ہدایات جاری کیں۔ اس حوالے سے تمام میڈیا چینلز پیمرا قوانین 2015ء کی پابندی یقینی بنائیں، ہدایت نامے میں کہا گیا کہ عوامی رائے کی تشکیل جمہوری عمل کو مضبوط کرنا میڈیا کا کام ہے۔ الیکٹرانک میڈیا الیکشن ٹرانسمیشن میں تمام حقائق مدنظر رکھے اور ایسی خبر نشر نہ ہو جس سے عوام کے ذہنوں میں شکوک جنم لیں۔ کسی منفی یا غلط خبر سے الیکشن سبوتاژ نہیں ہونے چاہئیں ایسی کسی بھی خبر کو نشر کرنا پیمرا قوانین کی خلاف ورزی ہوگا، تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری 2024 ء کو عام انتخابات کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ وفاق اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز ہوں گے، لہذا عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے حوالے سے ایک جانب آئینی اور جمہوری عمل مکمل ہوچکا جبکہ دوسری جانب جہاں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہونے پر انتخابی شیڈول جاری کرینگے وہاں وطن عزیز میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے کو بار بار دھرا کر تماشا تو بنا دیا گیا لیکن اس کی بازگشت جاری ہے۔پاکستان تحریک انصاف اس وقت مادر وطن کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے، کیا تحریک انصاف کو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے دیا جائیگا؟ یہ سوال ملک کے طول و عرض میں گونج رہا ہے لیکن اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آ سکا، بہرحال عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہونے کے بعد تحریک انصاف نے پنجاب کے تین اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو درخواستیں جمع کروا دی ہیں کہ ہمیں جلسے کرنے کی اجازت دی جائے، پی ٹی آئی نے گوجرانوالہ میں 10 نومبر، سیالکوٹ میں 17 نومبر اور شیخوپورہ میں 19 نومبر کو جلسے کی اجازت مانگی ہے، اس کے علاؤہ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست ضمانت دائرکر دی، درخواست میں مدعی مقدمہ نسیم کھوکھر اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں کہا گیا کہ کہ سائفر کیس چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف سیاسی مقدمات کی ایک کڑی ہے۔ لہذا دیکھنا ہوگا کہ آئندہ انتخابات کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو کیسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے، وطن عزیز میں آج بھی سیاست چئیرمن پی ٹی آئی کے ارد گرد گھوم رہی ہے، جیسے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی شک نہیں چیئرمین پی ٹی آئی ملک کے مقبول لیڈر ہیں، ان کو چاہیے تھا کہ تحمل سے کام لیتے، میں چیئرمین پی ٹی آئی کی دل سے عزت کرتا ہوں، خواہش تھی کہ تمام سیاستدانوں کو ساتھ بٹھاتا، جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ الیکشن کا اعلان ہو گیا ہے، اب جنگ چھڑچکی ہے، ہم الیکشن میں بتائیں گے تم چوری کیسے کرتے ہو، انھوں نے کہا کہ اسرائیلی ایجنٹ کو مکافات عمل کے سپرد کیا ہے، اب آمنا سامنا ہو گا، تم نے پاکستان کا چہرہ تبدیل کر دیا ہم سیاسی اور معاشی، دفاعی طور پر آزاد ہونا چاہتے ہیں، ثابت ہوا کہ سیاست کے تمام کھلاڑیوں کی اننگز جس پچ پر کھیلی جا رہی ہیں، اس کا اصل فاتح چئیرمن پی ٹی آئی ہے، ویسے فضل الرحمان نے جو باتیں کی ہیں، پی ٹی آئی گزشتہ برس اپنے چئیرمن پر 3 نومبر کو ہونے والے قاتلانہ حملے کا بھی خوب واویلا کر رہی ہے۔ اس سوال کا جواب بھی بہرطور سیاسی میدان میں گونجتا رہے گا، سیاسی جماعتوں کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا تقاضا باربار مذاق کے طور پر سامنے آ رہا ہے اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ن لیگ کی جانب سے ایسا تقاضا واقعی مذاق ہے کیونکہ نواز شریف جب لندن سے پاکستان نہیں آئے تھے، اس وقت سے یہ خبریں گردش میں ہیں کہ نواز شریف کہتے ہیں: آئندہ میں چوتھی مرتبہ ملک کا وزیر اعظم بنوں گا، یہ بات لکھ کر دینے کو تیار ہوں، گویا ایک طرف ایسے دعوے اور دوسری طرف لیول پلیئنگ فیلڈ کا بین، سمجھ سے بالا تر ہے، سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ایک مرتبہ پھر کہا ہے کہ آج سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ چاہیے اور ایسا ضرور ہونا چاہیے، دراصل اصولوں کے بغیر سیاست ایسی ہی بے ڈھنگی ہوا کرتی ہے۔ کبھی پی ٹی آئی اور پی پی پی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں اور کبھی کچھ! چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایسے کسی اتحاد کی نفی کردی ہے اور آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ ملک میں اگلی حکومت پیپلزپارٹی بنائے گی۔ فضل الرحمان کہتے ہیں: چئیرمن پی ٹی آئی پر پابندی لگ سکتی ہے، اس سارے سیاسی کھیل میں یہ سوال گونجتا رہے گا کہ 8 فروری کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی یا فیلڈ ہی نہیں ملے گی؟