سلمیٰ نام سے ہمارا پہلا تعارف تو عربی شاعری کی تاریخ سے تھوڑی بہت شُد بُد ہونے کے بعد ہوا تھا۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ قبل از اسلام جن سات اہم ترین عربی شعرا کے قصائد خانہ کعبہ کی دیواروں پر آویزاں تھے، ان میں ایک زہیر بن ابی سلمیٰ بھی تھا بلکہ اس زمانے میں ایک مرد کا ایسا نام سن کے حیرت بھی ہوئی تھی۔جب قلب و ذہن پہ اُردو شاعری کا در کھلا تو ہم پہ کھلا کہ معروف رومانوی شاعر اختر شیرانی نے تو اس نام کو اتنا سر پہ سوار کیے رکھا کہ یہی نام اُردو شاعری میں جیتے جاگتے زنانہ محبوب کا نقطۂ آغاز قرار پایا۔ مَیں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ اُردو شاعری کی بوالعجبی ملاحظہ ہو کہ اس میں زنانہ محبوب کو ایک پٹھان نے متعارف کرایا۔ بلوغت کا اگلا ورق پلٹا تو بھارت اور بعد میں جاوید شیخ والی سلمیٰ کے ’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘ نے بھی ہم جیسے نوجوانوں کے دل کے تار ہلانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ فلم کے ساتھ ساتھ اُردو فکشن اور سفرنامے کی حقیقی ہیروئن یعنی اپنی خالص والی من موہنی سلمیٰ کہ جسے سب پیار سے ’سلمیٰ آپا‘ کہتے ہیں، سے بھی ہمارا تعارف اس وقت سے ہے، جب کالج کے زمانے میں، سوشل یا حواس شل میڈیا، حتیٰ کہ کسی بھی طرح کی خالص تفریح کی عدم موجودگی میں ہم مطالعے کی مستیوں میں دل و جان سے مگن تھے اور نسیم حجازی، ابنِ صفی، ناصر کاظمی، پروین شاکر، اور مزاح کے کوچے کے شناور پطرس بخاری، شفیق الرحمن، ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی ہمارے پوٹوں اور پپوٹوں پہ دھرے تھے۔ ان دنوں کالج لائبریری میں دستیاب کوئی بھی ادبی صنف ہماری دست برد سے محفوظ نہ تھی۔ کالج لائبریرین نے کتاب کو پیچھا نہ کرنے کی میری عادت سے متاثر یا دل برداشتہ ہو کر مجھے کتاب کا پیچھا کرنے کی سرِ عام اجازت دے رکھی تھی تھا۔ ایسے میں نئی نویلی کتب کی ریکی کرتے کرتے ایک رَیک میں انوکھے سے نام والی ’ یہ میرا بلتستان‘ ہاتھ لگی۔ نام ہی سے تجسس جاگا کہ کسی خاتون کا یہ اندازِ محبوبائی آخر کس کے لیے ہے؟ ظاہر ہے ’بلتستان‘ کسی نارمل مرد کا نام تو ہو نہیں سکتا۔ مطالعے کے بعد علم ہوا کہ یہ پاکستانی جغرافیے کی چوتھی کھونٹ ہے جسے سلمیٰ اعوان نے محبوبہ پہلے بنایا اہلِ سیاست نے پانچواں صوبہ بعد میں۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہمارے ہاں صوبے اور منصوبے صرف ناکام کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ محترمہ سلمیٰ اعوان کی متنوع الجہات اور کثیر الصفات تحریریں پڑھ کے، ان کے لیے محض ’نثر نگار‘ کی اصطلاح چھوٹی لگنے لگتی ہے، میرے خیال میں ایسے ادیبوں کے لیے نثر نگار کی بجائے ’نثر نکھار‘ کی اصطلاح زیادہ موزوں ہے۔ اپنے سفرناموں اور ناولوں میں بعض اوقات تو وہ ہمیں ایسے ایسے مناظر اور کیفیات میں لے جاتی ہیں کہ ان کی تحریر ’تحیریر‘ لگنے لگتی ہے۔ یہی سلیقہ ان کی نثر کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی میں بھی کوٹ کوٹ کے بھرا ہے۔ سلمیٰ آپا کے فن یا زندگی کا مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس ہنر یا حکمت سے بہ خوبی آگاہ ہیں کہ علم تو حلم اور عجز سکھاتا ہے۔ یہ بات ہمارے شاعر ادیب کم جانتے ہیں کہ خود ستائی تو جگ ہنسائی کی بڑی بہن ہوتی ہے اور یک طرفہ مؤقف تو چلتا پھرتا طُرفہ تماشا ہوتا ہے۔ سلمیٰ آپا جانتی ہیں کہ قلم کی حرمت تو قسم کی حرمت سے بھی آگے کی چیز ہے۔ مَیں ان کے مسلسل مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنی پاک سر زمین اور اُمتِ مسلہ سے عشق ان کے خمیر میں ہے، ان دونوں کے مسلسل بگاڑ کا دُکھ ان کی ہر تحریر میں ہے اور ان کے لیے مسلسل اچھا سوچتے اور کرتے چلے جانا ان کے ضمیر میں ہے۔ آقا ہونے کے خمار آلود ماحول میں یہ ’آپا‘ ہونے کے فخر کے ساتھ زندہ ہیں۔اتنی سادہ خاتون ہیں کہ پہلی نظر میں ایسی خالہ جیسی دِکھتی ہیں جو ساتھ والے گاؤں سے بھانجی کے لیے اَلسی کی پِنیاں بنا کے لائی ہے لیکن جب ان کی تحریروں کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو مختلف تہذیبوں، ثقافتوں، رویوں، رواجوں کی کھٹی میٹھی اور رنگا رنگ ڈشیں ادب پہ دسترخوان پہ رکھی نظر آنے لگتی ہیں۔ غالب نے کہا تھا: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں ان کے ناولوں پہ نظر ڈالیں توایک طرف ’تنہا‘ رہ جانے کی بازگشت ہے۔ دوسری طرف ’لہو رنگ فلسطین‘ کی کسک ہے، موجودہ حالات میں جس کی معنویت زیادہ کھل کے سامنے آ گئی ہے اور کہیں ’گھروندا اِک ریت کا‘،’زرغونہ‘ اور ’شیبہ‘ جیسے سماجی، تہذیبی اور رومانی ناولوں کی جگ مگ ہے۔افسانے کی طرف دھیان کریں تو ’کہانیوں کی دنیا‘، ’ کالی لڑکی‘ ، ’بیچ بچولن‘، ’فی سبیل اللہ‘ اور ’خوابوں کے رنگ‘ بکھرے پڑے ہیں۔سفرناموں کی جانب سفر کریں تو ’یہ میرا بلتستان‘ سے شروع ہونے والا تجسس و تفکر، میرا گلگت و ہنزہ، سُندر چترال، مصر میرا خواب، روس کی ایک جھلک، عراق اشک بار ہیں ہم، حیرت بھری آنکھوں میں چین ، تیرے اُفق بے حدود و بے ثغور، مَیں گئی سیلون، اٹلی ہے دیکھنے کی چیز، شام: امن سے جنگ تک، اور استنبول کہ عالم میں منتخب، جیسے سفرنامے کہ جن میں وہ مذکورہ ملک یا علاقے کی تہذیب و ترجیحات کی روح کھینچ کر اسے روح پرور اسلوب میں قاری کی خدمت میں پیش کر دیتی ہیں۔ ان کی عصری شعور سے جگ مگ کرتی کالم نگاری اس پہ مستزاد ہے۔ مختصر یہ کہ سلمیٰ اعوان، نو حرفوں کی اوٹ میں بیٹھی ایسی نو گزی ادیبہ ہے کہ جن کے متحرک اوقات، متفرق صفات، متبرک جذبات اور متنوع جہات کی بنا پر ہم انھیں موجودہ متنازع ادبی عہد کی سب سے غیر متنازع عظیم قلم کار قرار دے سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ’’تنہا‘‘کے مطالعے کے بعد وطنِ عزیز سے جغرافیائی محبت نے ایک اور انداز سے انگڑائی لی۔ آپ جانتے ہیں کہ ڈھاکہ تو ہماری تہذیب، معاشرتی ترتیب اور مِلّی ترغیب کے سینے میں کُھبا ہوا وہ تیر ہے کہ موجودہ سیاسی ابتری اور اشرافیہ کی بے تدبیریوں سے جس کی کسک روز بہ روز فزوں تر ہوتی جاتی ہے۔ سلمیٰ آپا اپنے تعلیمی سلسلے میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں موجود ہونے کی بنا پر اس سانحے کی موقر اور چشم دید گواہ ہیں، جنھوںنے اس قومی المیے کو نہایت گداز دل کے ساتھ ناول کے نگار خانے میں دھر دیا ہے۔ اس ناول میں پوربھو دیس کے خوبصورت جغرافیے کی عکسیت کے ساتھ وہاں کے مسائل کی نزاکت کو اس کی ہیروئن سمیعہ علی کی زبان سے جس نزاکت، نفاست اور حساّسیت کے ساتھ سمجھانے اور سلجھانے کی خوبصورت کاوش کی گئی ہے، حیرت ہے کہ یہ کسی تاریخ بان، سیاست دان، جغرافیہ سان یا عسکری پردھان کے ذہن میں کیوں نہیں آئی؟ سچ پوچھیں تو سلمیٰ اعوان نے ناول نہیں لکھا، پلکوں کے کروشیے سے احساس کی جھالر بُنی ہے۔ ناول کا مطالعہ کرتے کرتے مجھے تو اس کی ہیروئن سے سچ مچ کا عشق ہو گیا ہے۔ اگر اسے سلمیٰ اعوان سے عشق سمجھا جائے تو یہ میرا اس سے بھی بڑا فخر ہے!!!(آثار اکادمی کے ’زیست آثار‘ ایوارڈ کی فلیٹیز میں منعقدہ تقریب میں پڑھا گیا)