سچ سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے۔اردو شعروادب کے آٹھ دس بڑے سچ ہیں جن سے کسی کو مفر نہیں۔سچ کی طاقت کے آگے کون کھڑا رہ سکتا ہے۔زندگی کے ہر شعبے کے اور ہر عہد کے اپنے سچ ہوتے ہیں۔ ہمارے ادب کے بھی آٹھ دس سچ ایسے ہیں جن کو مان کر ہی دنیا پڑتا ہے۔اردو شعروادب کا پہلا سچ یہی ہے کہ غالب نے بیدل کے سبک ِہندی کے تتبع میں اردو غزل کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا اور ادب دنیا کسی ایک خطے کا نہ رہا اسے عالمی انسان کا تجربہ بنا دیا۔اور بلاشبہ وہ اردو کا عظیم شاعر مانا گیا۔اس کے ہم عصروں میں وٹ مین، ہوپکن، پو، ورڈز ورتھ اور فرانسیسی شعرا میں بودلیر،پال والری، ملارمے اور آرتھر رامبو (ناصر کاظمی کے فیورٹ) شامل تھے ان کے ساتھ باقی دنیا کے شاعر شامل کر لیے جائیں تو غالب ان سے کسی طور کم نہیں۔اس نے غزل کو سکہ رائج الوقت ہی نہیں بنایا آنے والوں کے لیے ایک راستہ معین کر دیا۔اقبال نے اردو ادب کا منظر نامہ ہی بدل دیا اور جدید نظم کے لیے میدان ہموار کر دیا۔آزاد نظم اور موجودہ غزل کا رنگ ڈھنگ اقبال کا ہی عطا کردہ ہے۔فیض، منیر نیازی، راشد، مجید امجد اور ظفر اقبال بھی اس سچ کا لازمی حصہ ہیں۔اس عصر کی غزل اور نظم کی بھی الگ شناخت ہے جس میں بہت سارے شعرا جن میں نظم نگار بھی شامل ہیں اور نیا خون بھی اس میں مسلسل شامل ہو رہا ہے۔غالب، اقبال، فیض، راشد اور مجید امجد تک سب کو اتفاق ہے۔اس سے آگے تو منیر نیازی بہرحال صف اول کی زینت ہیں۔ اس عہد کے بھی سچ ہیں جن کو ماننے میں لوگ ابھی متحمل ہیں۔غزل اور آزاد نظم کی وہ آبرو ہیں۔ ایک اور صنف کا چرچا ہوا مگر وہ سچ مانیے اپنے سچ کی تلاش میں ہے۔نثری نظم کے حق اور استرداد میں بہت سارے دلائل بھی دیے جاتے ہیں۔نثری نظم اردو ادب کا ایک تجربہ ہے چلیے ایک اہم تجربہ کہہ لیجیے جسے مقام بناتے ہوئے اور اس کی جدوجہد کرتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے اس عرصے میں بلاشبہ بہت اچھی نظمیں تخلیق ہوئی ہوں گی مگر سوال اس کے جواز سے زیادہ اس صنف کا بوجھ ہے جو اس کے تخلیق کاروں کا ڈھونا پڑ رہا ہے۔غزل کے بہت سارے پڑاؤ ہیں اٹھارویں صدی کے شعرا میں ایک آدھ ہی نام ہم لوگوں کے حافظے میں ہیں مگر ہم آسانی سے ان میں ولی وغیرہ کو نشان زد کر سکتے ہیں آزاد نظم کے پہلے پچاس سالوں میں راشد اور مجید امجد جیسے نظم نگار مل گئے ایک اپنی زندگی میں اور دوسرے اپنی رحلت کے بعد اہم ترین ہو گئے۔نثری نظم اس حوالے سے اپنے آپ کو منوانے کے لیے کسی کے انتظار میں ہے وہ جو ظفر اقبال نے کہا ہے وہ شہسوار ِسخن جس کے انتظار میں ہوں کب آئے اور مجھے روند کر گزر جائے وہ غزل سے زیادہ نثری نظم کے لیے کہا محسوس ہوتا ہے۔ بات یوں ہے کہ اقبال کے انتقال کے ساتھ ہی آزاد نظم کے مجموعے شائع ہونا شروع ہو گئے تھے ایک آدھ سال میں ہی ماورامنصہ شہود پر آ گیا۔ایک دو سالوں بعد نقش ِ فریادی بھی شائع ہو گئی جس کے بارے میں خود فیض نے کہا انہوں نے کہیں روایت سے انحراف ہی نہیں کیا ہے مگر یہ دونوں مجموعے آزاد نظم کا نقش معین کر گئے۔اب راشد اور مجید امجد اور فیض کے انتقال چالیس اور پچاس کا عرصہ ہو گیا ہے۔آزاد نظم کے بانیوں مبانیوں کی زندگی میں ہی یعنی ساٹھ کے عشرے میں نثری نظم لکھنے والے آ گئے تھے۔ان پچاس سالوں اس نثری نظم کے جو بھی بانی ہیں وہ الگ تشخص کیوں نہیں بنا سکے۔ان میں سے کسی کی کتاب کا کوئی حوالہ کم از کم ہماری نظر سے نہیں گزرا۔۔کسی قاری یا نقاد کو دس غزلیں اور آزاد نظمیں انتخاب کرنے کا کہا جائے تو اس کے پاس دس غزلوں نظموں سے کہیں زیادہ تخلیقات دستیاب ہو سکتی ہیں یوں انتخاب کا معاملہ بہت آسان ہو جائے گا۔بعینہ کسی اور صنف ادب خواہ وہ افسانہ ہو یا ناول ہو یا ادب کی کوئی اور صنف کا انتخاب کا معاملہ آسان ہو جاتا ہے۔مگر نثری نظم کی ظاہر اور خوابیدہ خصوصیات ابھی یوں سامنے نہیں کہ ان سے کوئی ماڈل کے طور پر چن سکے۔اس کے لیے نثری نظم نگاروں کو خود انتخاب کر کے اردو ادب کے قارئین کے لیے کرنا چاہیے جس کو ماڈل کے طور پر پیش کر سکیں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے تا کہ غیر نثری نظم نگاروں شاعروں کے علاوہ بھی کسی کو ان کا کیس پیش کرنے میں سہولت ہو۔ نثری نظم کے مدعی اس کے اندرونی آہنگ کی بات کرتے ہیں جس کی بنیاد پر وہ اپنا علم بلند کر کے رواں قافیے والے آہنگ سے کتراتے ہیں۔آخر ایسی اندرونی آہنگ والی نظموں کا ہی انتخاب کر دیں۔اختر حسین جعفری کہا کرتے تھے کہ کسی نثری نظم لکھنے والے کو آج تک نوبل پرائز بھی نہیں ملا۔واللہ اعلم بالصواب۔ ہم نے یہ ساری باتیں ممتاز شاعر یوسف خالد کی تحریک پر قلمبند کی ہیں کہ انہوں نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کا بیڑا اٹھایا ہے بلکہ ان کا ایک مجموعہ سمے کا دھارا بھی زیور طبع سے آراستہ کر چکے ہیں۔اس سلسلے میں احباب کی آرا کا انتظار رہے گا۔اس دوران ان کی بھیجی ہوئی ایک نثری تخلیق پیش خدمت ہے۔ مؤرخ/کچھ وقت نکال /میرے پاس بیٹھ /میں شاعر ہوں /میں اپنے عہد کو جس آنکھ سے دیکھتا ہوں /جس دل سے محسوس کرتا ہوں /وہ کسی اور کو میسّر نہیں/میری شاعری سے زیادہ کوئی حوالہ معتبر نہیں /تمہیں جو نظر آتا ہے یہ آئس برگ ہے/میرے اندر اتر /تمہیں میرے نہاں خانہ میں دور تک بکھری ہوئی /اس عہد کی کہانیوں کے عنوان /نظموں کی صورت دیکھنے کو ملیں گے/ان کہانیوں کے کردار مجھ سے مانوس ہیں/مجھ سے کچھ نہیں چھپاتے /تمہیں سچ لکھنا ہے تو /میری کہانیوں کے کرداروں سے مل /ادھر دیکھ /کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرتے ہوئے/ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتے ہوئے معصوم بچے/بائیں جانب نظر کر/یہ اپنے آپ میں سمٹی ہوئی کم لباسی /یہ اپنے پورے شباب پر بے کسی و بے بسی کے ہاتھوں /پڑمردہ سسکتی ہوئی غریبی/جس کی جنسی اشتہا اس کے لیے طعنہ ہے /جس کی آنکھوں میں پلتے ہوئے خواب /پلکوں سے گرنے اور بکھرنے کے لیے ہیں/یہ ہر سو مجسم ہوتی ہوئی بھوک ، افلاس اور بیتوقیری/یہ عدل و انصاف کے ایوانوں میں /بکتا ہوا انصاف /یہ دلیلیں ، یہ بحثیں، یہ گواہیاں یہ حلف نامے/یہ زندوں کے لیے تازیانے/یہ بے موت مرنے والوں کی لاشوں پر ہونے والے بین /اور لمحہ لمحہ ذلیل ہوتی ہوئی مخلوق/یہ زندگی کے روپ میں موت سے بد تر حیات/یہ مسلسل استحصال /یہ جبر یہ آہ و بکا/کیا تم میری نظموں کو تاریخ کا حصہ بناؤ گے /کیا یہ سچ لکھ پاؤ گے /یا /حکمرانوں اور ان کے حواریوں کی دی ہوئی معلومات/اور آدھے ادھورے مکروہ بیانیے کو موضوع بناؤ گے/یہ جان لو کہ تم نے سچ نہ لکھا تو تمہارا جھوٹ پکڑا /جائے گا/کہ سچ میں نے رقم کر دیا ہے۔