ایک اقرار سے انکار تک آ پہنچا ہے اک تماشہ ہے کہ بازار تک آ پہنچا ہے ایک لیلیٰ ہے کہ دیتی ہے دھائی ہر سو عشق بھی عاشق مکار تک آ پہنچا ہے میں نے روا روی میں یہ اشعار موزوں کر دیے مگر سب کچھ نظر کے سامنے ہے’’اے مرے شہر کے وارث ترا اللہ حافظ۔ ہر لٹیرا ترے دربار تک آ پہنچا ہے۔ اور پھر ایک شعر کے پس منظر میں آپ کو جانا ہو گا کہ ہونے والی ہیں سبھی مشکلیں آسان اپنی اک مسیحا ترے بیمار تک آ پہنچا ہے۔ مشکلات سے خلاصی تو آپ سمجھتے ہی ہونگے ویسے تو ماشاء اللہ ہماری تابندہ تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ جو بھی نجات دہندہ آیا پھر اس کے بعد اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہم ہاتھ پائوں مارنے لگے: پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا اور اس کے سوا کیا کہوں کہ میرے بازو نہیں رہے میرے، لو میرا آخری سہارا گیا۔ جب بلاول ایسی باتیں کرتے ہیں کہ لیول پلیئنگ ہو رہی ہے اور رفتہ رفتہ وہی پرانی ڈرامہ بازی شروع ہے کہ لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے۔ ہنسی تو اس بات پر آتی ہے کہ آپ عدم اعتماد کے گناہ و ثواب اور اس کے بعد کی جزا اور سزا میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ جب دنیاجہاں کے ممالک کے دورے کر کے تھک گئے اور تمام مراعات حاصل کر چکے تو اب عوام کے سامنے آپ نواز شریف سے بھی زیادہ معصوم بن کر بیٹھ گئے ۔آپ اس بات سے پریشان ہیں کہ ن لیگ کے پاس ابھی ایک ترپ کا پتہ میاں صاحب کی شکل میں موجود ہے ۔ شاید لوگ جھانسے میں آ جائیں مگر وہ شہباز شریف کی کمائی ہوئی رسوائی کس کھاتے میں ڈالیں گے عوام توتلے بیٹھے ہے۔ سب سے پتے کی بات تو رانا ثناء اللہ نے کہی ہے کہ نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دینا آئینی تقاضا ہے۔شہباز شریف بھی تو اپنے جرم کے سائے میں تخت نشین ہوئے تھے ،پھر اسحاق ڈار بھی تو ڈالر کو ڈیڑھ سو تک لانے کے لئے سارے بندھنوں سے آزاد کر کے لائے گئے تھے، اس پر کسی کو کوئی تشویش نہیں۔ انصاف کا ڈنکا تو بجے گا اور دور دور تک سنائی بھی دے گا۔ میں آئینی اور قانونی موشگافیوں سے ہٹ کر بات کرنا چاہتا ہوں کہ نواز شریف سے ہماری کون سی ذاتی دشمنی ہے میں تو ان میں رہنما اور لیڈر کی خوبیاں تلاش کرنا چاہتا ہوں اس سے بھی ہرگز انکار نہیں کہ وہ پاپولر ہیں اور بے شک ان کا ووٹ بنک ہے ان کے آنے سے میاں دے نعرے تے وجن گے۔ پتہ نہیں میری ایک خواہش ہے اور بہت دیرینہ ہے کہ قدرت نے اگر میاں صاحب کو موقع دیا تھا تو وہ اپنے لوگوں سے محبت کرتے ،اپنا جینا مرنا اس ملک پاکستان کے ساتھ کرتے، خواہش تو ان کی بھی قائد ثانی بننے کی تھی اور نینس منڈیلا کہلوانے کی ہے مگر آپ سراپا ایک سرمایہ کار اور کاروباری شخص بھی رہے: تم محبت کو سیاست کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا لیڈر اور رہنما تو سختیاں اپنے اوپر جھیلتا ہے اپنے عوام کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ آپ برطانیہ سدھار گئے اور تو اور آپ کی عیدیں اور شبراتیں وہاں ہیں۔ لگتا ہے آپ ایک کمفرٹ زون میں رہنے کے عادی ہیں۔کم از کم آپ یہاں قیام کرتے، آپ کی اولادیں یہاں ہوتیں، کوئی قربانی تو دیتے کہ اللہ آپ کو اس کا ریوارڈ لوگوں کی جان نثاری کی صورت دیتا۔مگر آپ نے پہلی مرتبہ ہی دس سال کا معاہدہ کیا اور سعودیہ پرواز کر گئے اور معاہدہ نہ ہونے کی بات کرتے رہے لیکن آخر سچ سامنے آ گیا۔اب آپ کے علاج کا معاملہ ایک تماشہ بن گیا ،معاہدہ اب بھی ہے۔ایک دن سامنے آ جائے گا آپ اپنے چھوٹے بھائی کی حکومت میں بھی واپس نہ آ سکے کہ آپ کو اپنی ذات اتنی عزیز ہے کہ مکمل ضمانت مانگتے رہے جو شاید اب مل گئی ہے۔ اب مریم نواز فرما رہی ہیں کہ نواز شریف ہر بار پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر واپس لوٹے ہیں۔ نواز شریف کے خلاف سازش کرنے والا ہر شخص اپنے انجام کو پہنچ چکا، ایک بات جواب طلب ہے کہ کیا اس سازش میں شہباز شریف بھی شامل ہیں کہ انہیں معاملات کو سدھارنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے لایا گیا تو انہوں نے تو عوام کو جانے والوں کی یاد دلا دی۔ وہ تو اب کام کا آغاز کر گئے کہ عوام قسطوں میں مر رہے ہیں۔ کیا یہ مسائل پیدا کرنے آئے تھے اور آپ حل کرنے آئیں گے۔ ویسے ہم تو کچھ اور دیکھ رہے ہیں کہ آپ کا شوق بھی پورا کر دیا جائے گا۔ حالات و واقعات کے تیور تو یہی بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بھیجے ہوئے لوگ واپس پیپلز پارٹی میں چلے جائیں گے یاپھر پیپلز پارٹی کو ٹانک یا ڈرپ لگائی جائے گی بلاول تو ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ وجہ یہی کہ استحکام پارٹی والے مستحکم نہیں ہو سکے اور الیکشن کے لئے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سائرہ بانو کے بقول سو سے زیادہ لیڈر اکٹھے ہو گئے ہیں مگر ووٹوں کی تلاش ابھی باقی ہے جنوبی پنجاب میں کام آسان ہے۔ ویسے جاوید لطیف نے خوب بات کی ہے کہ نواز شریف سے دشمنی کی سوچ ملک دشمنی ہے۔ وہ خود تو اس ملک میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے یعنی بحیثیت ایک آدمی وہ تو صرف حکمرانی کرنے آتے ہیں۔ ویسے یہ بیان مجھے ضیاء الحق کی یاد دلا گیا۔اگر آپ اسلام پسند کرتے ہیں تو میں پانچ سال کے لئے صدر ۔یعنی محب وطن ہونے کے لئے یہ کیا شرط ہے۔ انتخابات دور نہیں ویسے شہباز شریف کو لوگوں کے سامنے آنے سے روکیں اور نہ اسحاق کہیں کمپین میں نظر آئیں، لوگ بھرے بیٹھے ہیں: ایک خلقت ہے کہ نفرت سے بھری بیٹھی ہے ایک طوفان ہے کہ لوگوں نے دبا رکھا ہے