تجزیہ:شاہین صہبائی امریکہ کی سیاسی و سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف، جنہوں نے پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف جارحانہ مہم شروع کر دی ہے ،کی مدد کرنے کیلئے حال ہی میں پاکستان کے ایک عزیز دوست اور مسلمان ملک سے رابطہ کیا۔امریکی محکمہ خارجہ میں ایسی مداخلت کیلئے کچھ خاص دلچسپی نہیں پائی جاتی تاہم کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ لندن میں نواز شریف سے بات چیت کرنے اور انہیں باز رکھنے کیلئے کوئی نمائندہ بھیجا جائے ،تاہم اس تجویز کو رد کر دیا گیا اور مذکورہ اسلامی ملک کو بتا دیا گیا کہ واشنگٹن اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا۔قابل اعتماد ذرائع نے مجھے بتایا واشنگٹن میں ایک سابق پاکستانی سفیر کو بھی کچھ اشارے ملے اور انہوں نے اپنی خدمات کی پیشکش کی لیکن انہیں بھی مسترد کر دیا گیا۔قدرتی طور پر محکمہ خارجہ کا یہ فیصلہ امریکی پالیسی کے مطابق ہی ہے جیسا کہ امریکہ افغانستان میں ایک پیچیدہ صورتحال میں الجھا ہوا ہے اور پاکستان بنیادی کردار ادا کر رہا ہے ۔امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے حال ہی میں افغان مذاکرات کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے پاکستانی کوششوں کی تعریف کی تھی۔اس صورتحال میں نواز شریف اور ان کے مشیر چاہتے ہیں کہ ٹرمپ پاکستانی فوج کیخلاف ان کی مدد کریں جو کہ افغان مذاکرات میں بنیادی کردار کی حامل ہے ۔ یہ انتہائی احمقانہ خیال ہے ۔جب میں نے نواز شریف کے اس اقدام پر تبصرے کیلئے وزیراعظم عمران خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انکے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ نواز شریف لندن میں کیا کر رہے ہیں اور اگر باہر سے کسی نے نواز شریف کے متعلق ان سے بات کرنے کی کوشش کی تو وہ اسے بہت سخت جواب دیں گے ۔ تو اب جی ایچ کیو کے دروازے مسلم لیگ ن پر بند ہو گئے ۔میرے ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے احتجاجی منصوبوں اور بالخصوص ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مولانا فضل الرحمٰن کو قائدانہ کردار دینے کے متعلق واشنگٹن کے پالیسی ساز کچھ متفکر ہیں۔ امریکی سوچتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن افغان مذاکرات کیلئے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ وہ سالوں تک طالبان رہنماؤں کے استاد رہے ہیں اور اب بھی ان پر اثرو رسوخ رکھتے ہیں، اگر انہوں نے کچھ برا کھیل کھیلنے کی کوشش کی تو امریکی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔اس لئے ایسی کوششیں ہو رہی ہیں کہ اپوزیشن اتحاد کو قائل کیا جائے کہ وہ مولانا فضل الرحمٰن کا کردار محدود کریں۔مولانا فضل الرحمٰن کو دو بڑی جماعتوں نے قائدانہ کردار دیا ہے کیونکہ ان کے پاس سٹریٹ پاور کی کمی ہے ۔ مولانا کے پاس مذہبی مدرسوں کے طلبا کی طاقت ہے جس کا مظاہرہ وہ 2019 میں اسلام آباد میں کر چکے ہیں، لیکن تب دونوں بڑی جماعتوں کو ڈیل کرنے پر کچھ رعایت مل گئی اور انہوں نے مولانا کا ساتھ نہیں دیا جنہیں شرمندگی میں گھر واپس جانا پڑا۔ اس بار وہ کافی عقلمند ہیں اور اپنے خیال سے بھی دوگنا قیمت لگا رہے ہیں۔انہوں نے پکے وعدوں کی یقین دہانی مانگی ہے کہ ہر کوئی پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے گا۔ انہیں یقین ہے اور خدشہ بھی ہے کہ اگر صورتحال خراب ہوئی تو بڑی جماعتیں دوبارہ انہیں تنہا چھوڑ دیں گی۔پارلیمنٹ میں حصہ ان کا واحد اور پرزور مطالبہ ہے اور اسی کیلئے وہ نئے انتخابات چاہتے ہیں۔ایسا تبھی ممکن ہے جب موجودہ پارلیمنٹ تحلیل ہو جائے ۔ وزیراعظم عمران خان استعفیٰ دے رہے ہیں نہ اسمبلیاں تحلیل کر رہے ہیں۔مارچ میں پیپلز پارٹی کو سینٹ میں متعدد سیٹیں مل جائیں گی، اس لئے وہ ساری اپوزیشن کو دھوکہ دے رہی ہے اورکسی بھی تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔مسلم لیگ ن متعدد کیسز میں الجھی ہوئی ہے لیکن تحریک انصاف کے رہنماؤں کی ناتجربہ کاری کا فائدہ اٹھا رہی ہے ، بالخصوصاپوزیشن رہنماؤں کیخلاف غداری کے مقدمے جیسے کام کا۔جب میں نے وزیراعظم عمران خان سے پوچھا یقینی طور پر کوئی انہیں اور انکی حکومت کو شرمندہ کرنا چاہتا ہے تو کیا وہ اس بات کی تہ تک پہنچے ہیں، تو ان کا جواب بہت پریشان کن تھا، انکا خیال ہے کچھ ضرورت سے زیادہ پرجوش بیوقوفوں نے ایسا کیا ہے لیکن انہوں نے سخت نوٹس لیا ہے ، وزیراعظم ہاؤس کے ایک عہدیدار کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے سخت سرزنش کی ہے اس لئے آئندہ ایسی بیوقوفی نہیں ہوگی۔میرا خیال ہے اپوزیشن کی تحریک کہیں نہیں جا رہی کیونکہ متضاد خیالات کی کئی جماعتیں ایک چھوٹے سے کچن میں اپنے اپنے کھانے بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔شدید مایوسی کے عالم میں تمام منفی کارڈ کھیلے جا رہے ہیں، مسلم لیگ ن پنجابی کارڈ، مولانا مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں، مریم نواز عورت ہونے کا فائدہ اٹھا رہی ہیں، کچھ فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دے رہے ہیں، یہ تمام حکومت کو بلاک کرنے کیلئے سڑکوں پر آ رہے ہیں تاکہ امن و مان کی صورتحال کشیدہ ہو جائے جو فوج کو معاملے میں گھسیٹ لائے ۔لیکن میں ہر ایک سے یہ پوچھتا رہا ہوں اگر بحرانی صورتحال پیدا ہو گئی اور فوج آگئی اور عمران کو اقتدار چھوڑنے کیلئے مجبور کیا گیا تو پھر اپوزیشن رہنماؤں کو کیاحاصل ہوگا۔حکومت مظاہروں پر سختی سے کریک ڈاؤن کریگی جس سے کاروبار،صنعتیں اور زندگی بری طرح متاثر ہوگی، اگر ضرورت پڑی تو فوج حکومت کی مدد کریگی۔ مولانا کو سکول کے بچوں کو دوبارہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ایک وہم میں گرفتار ہو کر نواز شریف اگلے آیت اللہ خمینی بننے کا سوچ رہے ہیں کہ وہ لندن میں بیٹھ کر خطبے دیں گے اور گلیاں سڑکیں بھر جائیں گی۔میں نے ایک ٹی وی شو کے دوران از راہ مذاق مریم نواز سے پوچھا کہ ان کے والد کس قسم کے امام بننا چاہیں گے ۔ نئے ترجمان محمد زبیر عمر سے بھی ایک ٹاک شو کے دوران یہی سوال پوچھا گیا تو وہ سنجیدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ نواز شریف پاکستانی خمینی بننا چاہتے ہیں۔ہاں وہ بن سکتے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں 25 سال لندن میں رہنا پڑے گا، اچھی باتوں کی تبلیغ کرنی پڑے گی اور اپنے ماضی کے جرائم اور گناہوں پر معافی مانگنی پڑی گی اور جب قوم تیار ہو گی تب وہ خمینی کی طرح واپس آ سکتے ہیں۔اگر عمران خان صرف مہنگائی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کر سکیں عوام کیلئے ، تو نواز شریف کے خواب یوٹوپیا یعنی خیالی جنت کے مانند ہوں گے ۔