لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر تجزیہ کار ارشاد احمد عارف نے کہا ہے کہ نوازشریف اپنی ذات اورخاندان سے آگے نہیں دیکھ رہے ،یہی انکی سب سے بڑی کمزوری ہے جس کا انہیں نقصان ہو رہا ہے ۔ چینل 92نیوز کے پروگرام’’ہارڈ ٹاک پاکستان‘‘ میں میزبان ڈاکٹر معید پیرزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف ماضی میں بھی دو بار مزاحمتی بیانیہ اور سیاست کرچکے ہیں ۔1993 ئمیں انہوں نے ہائیکورٹ میں درخواست دی لیکن ان کو اشارہ ہوا کہ سپریم کورٹ آئیں، یہ پہلی بار ہوا تھاکہ کسی شخص نے براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہو، انکے حق میں فیصلہ آیا تو بینظیر بھٹو نے کہاکہ یہ چمک کا نتیجہ ہے لیکن لوگوں نے سمجھا کہ مزاحمتی بیانیہ کے زور پر حکومت بحال ہوئی۔ مزاحمتی سیاست اس وقت بھی کامیاب نہیں رہی اوراب بھی نہیں ہوگی۔ مشرف دور میں بھی یہ مزاحمتی تحریک کی وجہ سے باہر نہیں گئے تھے بلکہ جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے سعودی عرب اور حریری سے کہا کہ اس شخص کوبچایا جائے ۔ اب بھی نوازشریف یہ سمجھتے ہیں کہ اگروہ مزاحمتی بیانیہ دینگے تو میڈیا اورقا نون دان انہیں سپورٹ کرینگے ۔ چین اورترکی والے بلاک میں نوازشریف کوئی گنجائش محسوس نہیں کررہے ۔ حب الوطنی پر زیرو ٹالرینس ہونی چاہئے ۔ ہمیں بتانا چاہئے کہ جو بیانیہ آپ دے رہے ہیں اسکا فائدہ پاکستان دشمن قوتوں کو ہورہاہے ۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے خود اعتراف کیا تھا کہ وہ 1962 سے بھارتی خفیہ ایجنسی کے پے رول پر تھے اورپاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے کیلئے کام کررہے تھے ۔تجزیہ کار شا ہین صہبائی نے کہا کہ مجھے تو تصادم کی فضا بنتی نظر آرہی ہے ، اب تو براہ راست حملے ہورہے ہیں۔ لندن میں بیٹھ کر پاکستان مخالف بیان بازی ٹھیک نہیں یہ بیانیہ پاکستان میں اب چلنے والا نہیں، انکے پاس کہنے کو کچھ نہیں یہ صرف دبائو بڑھانے کے چکر میں ہیں، انہیں ریلیف نہیں مل رہا تو مزید سخت باتیں کررہے ہیں۔ تجزیہ کار مبشر لقمان نے کہا کہ نوازشریف نے اپنے بیانیے سے پاکستان کی سالمیت کو چیلنج کرنا شروع کردیا لیکن انکا یہ بیانیہ نہیں چلے گا۔ نوازشریف اداروں کی طاقت کو بڑی اچھی طرح سے جانتے ہیں، ا پنا سیاسی مستقبل ختم کرلیا۔ تجزیہ کار انصار عباسی نے کہاکہ ملکی سالمیت کیلئے پا ک فوج لازم وملزوم ہے ، اس کوکسی صورت کمزور نہیں کرناچاہئے ۔ اگر دبائو کے نتیجے میں ریلیف دیا جائے تو یہ ہماری بدقسمتی ہے ،مجھے ڈرہے کہ کہیں یہ تصادم آگے نہ چلا جائے ۔