قارئین! آج آپ سے کوئی اعداد و شمار کی بات نہیں ہوگی۔ کوئی تجزیہ اور کوئی پیشگوئی بھی نہیں۔آجکل ایک نئی سوچ آئی ہے وہ ہے موٹیویشن سپیکر کی۔ موٹیویشن سپیکر اپنے تجربات بیان کرتے ہیں۔ کس طرح انہوں نے اپنی ذاتی مشکلات پر قابو پایا اور کس طرح کٹھن حالات میں انہوں نے اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنایا۔ یہ سپیکر اپنے تجربات بیان کرتے ہیں اور سننے والوں سے اس کے پیسے وصول کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی بات اس وجہ سے سنی جاتی ہے کہ وہ زندگی کے امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اگر یہی باتیں وہ شخص کرے جو خود کامیاب نہیں ہوسکا تو اس کی بات کوئی نہیں سنتا ۔ آج کے دور میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا کہا جا رہا ہے بلکہ اس بات کی اہمیت ہوتی ہے کہ کس نے کہا ہے۔ میرے جاننے والوں میں ایک صاحب ایسے ہیں جو بہت انوکھے آئیڈیاز لے کے آتے ہیں۔ لیکن خود کسی آئیڈیا پر عملی طور پر کام نہیں کرتے۔ ایک وقت میں ایک کام کرتے ہیں دوسرے وقت میں دوسرا ۔ ان کی ذات میں ٹھہرائو نہیں ہے۔کچھ دوستوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ موٹیویشنل سپیکر بن جائیں۔ آپ کی مشکلات ختم ہوجائیں گی آپ ایسے انوکھے آئیڈیاز لیکر آتے ہیں۔ یہ خیالات دوسرے لوگوں سے شیئرکریں انہوں نے جواب دیا کہ میرا ایک پلس پوائنٹ ہے ۔ مجھے نیا خیال آتا ہے جو بات لوگ بیس سال بعد سوچتے ہیں میں آج سوچتا ہوں مگر میرا ایک مائنس پوائنٹ بھی ہے ۔ وہ یہ کہ میں مستقل مزاج نہیں ہوں۔ زندگی میں کامیابی کے لئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ مستقل مزاجی ہے۔ کوئی انسان کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو، وہ اگر مستقل مزاج نہیں ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بچپن میں ہر انسان کو ایک کہانی سنائی جاتی ہے کچھوے اور خرگوش کی۔جیت سست اور مستقل مزاج کچھوے کو ملتی ہے چست اور متلون مزاج خرگوش کو نہیں۔یہ کہانی پہلی دوسری کی کتاب میں ہوتی ہے۔ میرے خیال میں یہ کہانی ہر جماعت کی کتاب میں ہونی چاہئے۔ کہنے لگے میری مثال لو۔ میں پاکستان کے سب سے اچھے کالج کے سینیئر کلب کا ممبر تھا۔ کالج دور میںمیں ایک اچھا افسانہ نگار تھا۔ کوئیز کے درجنوں مقابلے جیتے۔ اردو ، انگریزی کے علاوہ ہندی، فرنچ اور جرمن زبان میں سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ کمپیوٹر میں پروگرامنگ میں شدھ بدھ حاصل کی،بہت عرصہ پہلے فلاور فارمنگ کی۔ 2010ء سے پہلے بلاگنگ سٹارٹ کی۔ 2008ء سے پہلے میرا ٹویٹر، فیس بک اور لنکڈان کا اکاونٹ ہے۔ میرا یوٹیوب چینل بھی 14 سال پرانا ہے۔پچاس سال کی عمر میں آج بھی ایک ناکام انسان ہوں۔ میرے پاس نہ گھر ہے نہ مستقل ملازمت۔ میں نے 2010ء میں دس ہزار روپے میں ایک ڈرامہ کی دس اقساط لکھ کر دیں اور 1992ء میں ملک شیک کے ایک گلاس پر اخبار میں کالم لکھ دیا ہے۔ زندگی میں صرف ایک چیز آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے وہ ہے مستقل مزاجی۔ عمران خاں کی مثال لے لیں۔ 1997ء میں کوئی سیٹ نہ جیتنے والی پارٹی 2018ء میں الیکشن کی سب سے کامیاب پارٹی تھی۔ 1936ء میں مسلم لیگ بہت برے طریقے سے ہاری تھی اور 1946 میں بہت اکثریت سے جیتی تھی۔ وجہ ایک ہی تھی قائد کی مستقل مزاجی۔ کوشش کے ساتھ اپنے ممکنہ ٹارگٹ کی طرف بڑھنا۔ مستقل مزاجی اور بغیر کوشش اور بغیر کسی ٹارگٹ کے اپنی بات پر اڑے رہنا ہٹ دھرمی ہے۔ مستقل مزاجی اور ہٹ دھرمی کے فرق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ میری ذاتی زندگی نے مجھے یہی سکھایا ہے خدا کی ذات پر مکمل یقین اور صبر اور استقلال کے ساتھ آپ ہر چیز کو ہرا سکتے ہیں۔ میرا بچپن ایسا ہی تھا ایک قدامت پسند فیملی جہاں بچیوں کی زیادہ تعلیم کی حمایت نہیں کی جاتی۔ میں نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے حق کے لئے لڑائی لڑی۔ گریجوایشن کے بعد میڈیا کی تعلیم حاصل کی۔ مجھے شوق تھا صحافت کا۔ صحافت کے شعبے میں آئی تو بہت ہی شفیق اور مددگار لوگ ملے۔ مشکلات بھی بہت تھیں، گھر کی طرف سے مخالفت بھی تھی۔ خاندان کے لوگ ملازمت اور خاص طور پر میڈیا اور صحافت کی ملازمت کے خلاف تھے ۔ ابھی سفر شروع ہی ہوا تھا ۔ مجھ پر 2017ء میں ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا ، کینسر کی تشخیص ہوئی۔ 2017ء سے علاج شروع ہوا مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی۔ 2019 ء تک میرا مرض اتنا بڑھ چکا تھا کہ ڈاکٹر میری زندگی سے مایوس تھے۔ کوئی معجزہ ہی تھا جو میری جاں بچا سکتا تھا۔ 2017ء سے لے کر 2019ء تک جن افراد نے میراحوصلہ بڑھایا ان میں محترم جاوید ہاشمی، محترم روف کلاسرہ صاحب اور چوہدری مشتاق صاحب۔ چوہدری صاحب نے میرے علاج کے لئے بہت کاوش کی اور اپنی اس زندگی میں میں جن کی سب سے زیادہ ممنون ہوں وہ ہیں ڈاکٹر عاصم صہبائی صاحب ہیں جن کے علاج سے میں موت کی وادی سے زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ کلاسرہ صاحب خدا انکو خوش رکھے ڈاکٹر صاحب تک رسائی کا ذریعہ بنے۔ 2019 ء میں میرا علاج شروع ہوا۔ 2020ء مئی میں مجھے خدا کی ذات پر اتنا بھروسہ تھا کہ میں نے ایک پوسٹ کی کہ مجھے یقین ہے 2021ء مئی میں یہ پوسٹ دیکھوں گی۔ خدا کی قدرت تھی اور ڈاکٹر عاصم کی مسیحائی کہ اب میں 2022 میں یہ کالم لکھ رہی ہوں ۔ اسی دوران اور بھی کئی حادثات اور صدمات دیکھے۔ 2021ء میں ایک حادثہ جس میں بڑی مشکل سے جان بچی۔ اسی طرح 2021ء میں والد صاحب کی وفات کا صدمہ دیکھنا پڑا۔ اب خدا کی ذات تھی اور میری والدہ کی حوصلہ افزائی جس نے مجھے اپنا کام جاری رکھنے کا حوصلہ دیا ۔ کینسر سے جو جنگ میں نے لڑی ہے اسکی گواہی روف کلاسرہ اور کئی کالم نگاروں نے دی ہے ۔ خدا ان لوگوں کو ہدایت دے جو میرے بارے میں منفی پراپیگنڈا کر رہے ہیں ۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی ۔ میرا رب میرے ساتھ ہے اور مجھے اور کسی کی پرواہ نہیں۔میرا خدا اس امتحان میں بھی مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا۔