حکومت ِ پاکستان ہر سال ان پٹ سبسڈیز، جیسے کھاد، بیج وغیرہ کے لیے اہم فنڈز مختص کرتی ہے ۔جو قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے ایک غیر موثر پالیسی ثابت ہو رہے ہیں۔ ان فنڈز کا مقصد کم قیمتوں کو برقرار رکھنا ہے۔ تاہم، قیمتوں میں کمی پر سبسڈی کا اصل اثرات نا ہونے کے برابر ہیں ۔ بنیادی طور پریہ اس لیے غیر موثر رہتے ہیں کیونکہ یہ سبسڈیز ادائیگی کے طریقہ پر پر مبنی ہوتی ہیں، جو پہلے سے ہی نقدی کی کمی کے شکار چھوٹے کسانوں کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوتیں۔ اس ضمن میں طریقہ کار میں تکنیکی پیچیدگیاں اس کے علاوہ ہیں۔ اس لیے چھوٹے کسانوں کی بہتر مدد کے لیے پورے ان پٹ سبسڈی ماڈل کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلز کے حوالے سے حکومت کے اقدامات ،کسانوں کے لیے ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے کافی امید افزا ہیں۔ مگر اس طریقہ کار کو بھی انتہائی باریک بینی سے حل کر ے کی ضرورت ہے ۔ آبپاشی کے جدید طریقوں کا فقدان پہلے ہی پانی کے ضیاع اور زیر زمین پانی کی کمی کا باعث بن رہاہے۔اس قسم کی سہولت کاری کے نتیجے میں یہ صورتحال مزید گھمبیر ہوسکتی ہے۔ موجودہ غیر موثر وارابندی نظام کے برعکس، پانی کی منصفانہ قیمتوں کا تعین بہت ضروری ہے۔موجودہ وارابندی کے نظام کی کل صلاحیت 13سے 19ارب کے لگ بھگ ہے جبکہ اس شعبہ کے حاصلات اس سے کہیں کم ہیں ۔ پانی کی قیمتوں کے درست تعین سے حاصل ہونے والے فوائد کا تخمینہ800ارب کے قریب پہنچ سکتا ہے ۔پانی کے ضمن میںدنیابھر کی طرح مناسب قیمتوں کا اطلاق یقینی طور پر پانی کے پائیدار انتظام اور موثر آبپاشی کو یقینی بنانے میں معاون ہو گا۔ زرعی زمینوں کے انتقال سے متعلقہ ضوابط میں 1967 کے بعد سے کوئی خصوصی توجہ نہیں دی گئی، نہ ہی ان قوانین میں کوئی ترمیم کی گئی ہے۔ ان فرسودہ قوانین پر نظر ثانی اورانہیںخودکار طریقہ کار کے لیے ٹیکنالوجی سے مربوط کرنا بہت ضروری ہے۔ مزید برآں، مقامی حکومت کی ضرورت سے زیادہ شمولیت اورپٹواریوں کی ملی بھگت کی وجہ سے زمینوںکی قیمت اصل قیمت سے کم ظاہر کی جاتی ہے جس کی وجہ سے لینڈ ٹیکس ریونیو بھی کم ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اراضی کی منتقلی کی فیس کے از سر نو جائزہ اور ڈی سی ریٹ کے نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ زمین کی بہتر تشخیص اور قیمت کے درست تعین کے لئے PLRA اور سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے زمین کے مقام، سہولیات اور دیگر عوامل کو بھی زیرِ غور لایا جانا چاہیے۔چنانچہ زرعی زمینوں کے تبادلوں کو آسان تر بنانا، اس عمل سے جڑے ہوئے مختلف اموراور عوامل کی تعداد کو کم کرنا، اورمختلف اسٹیک ہولڈرز جیساکہ ریونیو اورزراعت کے محکموں اور کسانوں کے درمیان معلومات کے تبادلے کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ پیداواری منڈیوں کے لحاظ سے، گندم کی امدادی قیمت کا نظام، جس میں ایک بڑا زرعی بجٹ صرف ہوتا ہے،اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل طور پر ناکام ہے۔برس ہا برس کی امدادی قیمتوں کے تسلسل کے باوجود ہم بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کے مطابق گندم پیدا کرنے میں ناکا م ہیں چنانچہ ہر برس گندم درآمد کر نا پڑرہی ہے جو کہ ملکی خزانے پر بھی بوجھ میں اضافہ کر رہی ہے ۔دوسری جانب چونکہ امدادی قیمت کی تمام تر خریداری بنک سے قرضہ حاصل کر کے کی جاتی ہے چنانچہ یہ عمل مسلسل گردشی قرضوں میں اضافے کا سبب بھی بن رہا ہے، صرف حکومتِ پنجاب پر اس وقت گندم کے ضمن میںگردشی قرضے کا بوجھ680ارب روپے ہے۔ حکومت گندم کی مناسب قیمتوں پر فراہمی میں بھی ناکام ہے۔مارکیٹ کی قیمتیں اس وقت بھی حکومت کی اعلان کردہ امدادی قیمت سے زائد ہیں۔ مزید برآں، بڑے کسان بڑے پیمانے پرپیداوار اور فروخت کے عمل پر حاوی ہیں، جس کا واضح نتیجہ یہ ہے کہ امدادی قیمت کے اس نظام کے اصل ثمرات چھوٹے کسانوں کے لئے انتہائی محدود ہیں۔ گندم کی پیداوار میں بڑے کسانوں کا حصہ 79 فیصد حصہ ہے جبکہ فروخت میں حصہ 84 فیصد کے قریب ہے، پیدوار میں چھوٹے کسانوں کا حصہ 11 فیصد اورفروخت میںحصہ صرف 6.4فیصد ہے۔ طریقہ کار میں تکنیکی پیچیدگیاں اس کے علاوہ ہیں جو چھوٹے کسانوں کے اس عمل سے مستفید ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مزید برآں، امدادی قیمت کے اس نظام کی وجہ سے قابل کاشت رقبہ کا ایک بہت بڑا حصہ گندم کے زیر استعمال آجاتا ہے ، جس سے زیادہ منافع بخش مسابقتی فصلوں کے لیے زمین کی دستیابی کم ہو جاتی ہے۔ہماری معیشت پر اس نظام کا کل بوجھ 233ارب روپے سالانہ سے بھی زائد ہے۔پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک کے انتظامی بجٹ اس کے علاوہ ہیں۔ لہٰذا، گندم کی امدادی قیمت کے نظام کو فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔قیمتوں کا تعین بازار کے رجحان اور قوتوں کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔ اس ضمن میں مکئی کی فصل کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے انتہائی خوبصورتی سے ہمیں دنیابھر سے مقابلے کے قابل بنا دیا ہے۔ ایک اور اہم شعبہ ذخیرہ اندوزی کا ہے ۔ہم سال بھر مختلف پھل اور سبزیاں پیدا کرتے ہیں مگرذخیرہ کرنے کی ناکافی اور غیر معیاری سہولیات کے نتیجے میں اناج اورپھلوںکاکافی نقصان ہوتا ہے۔مزید برآں روایتی گوداموں میں وینٹیلیشن اور کیڑوں پر قابو پانے کی کمی، ذخیرہ شدہ اناج کے معیار میں کمی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ناکافی کولڈ اسٹوریج کی وجہ سے پھلوں کا ضیاع تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ موجودہ اسٹوریج کو معیاری بنانے سے ممکنہ طور پر 1.3 ارب ڈالرکے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے اور برآمدی محصولات میں اضافے سے حاصل ہونیوالے فوائد اس کے علاوہ ہوں گے۔ شعبہ زراعت سے جڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے کاروباروں کو فروغ دینادیہی اقتصادی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ تاہم، ان کی سہولت کے لئے مختص کئے جانیوالے قرضہ جات بہت کم ہیں ۔ان میں خاظر خواہ اضافہ کیا جانا چاہیے ۔ فوڈ پروسیسنگ سیکٹر،پھلوں اور سبزیات کے ضمن میں قدرافزائی کے حوالے سے آگاہی اور معلومات کا خاصا فقدان ہے ۔ زرعی شعبہ کی برآمدی صلاحیت سے کلی طور پر مستفید ہو نے کے لئے ،ان دونوں شعبوں کو خصوصی توجہ درکا رہے ۔ پاکستان میں ایک نئے سبز انقلاب کے خواب کو تعبیر کرنے کے لئے نئی حکومت کو ان تمام مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا بصورتِ دیگر سب کھوکھلے دعوے اور جھوٹے وعدے جن سے کسی انقلاب کی اُمید بر نہیں آسکتی ۔