ماہِ ربیع الاوّل اوربالخصوص میلاد شریف کی رحمت بھری پھوار او ر اس کے علم آفریں اور نور پرور اہتمامات روبہ عمل ہیں۔مینارِ پاکستان کے سائے میں عالمی میلاد کانفرنس میں جامعۃ الازھر مصرسے ڈاکٹر ابراہیم صلاح الہدہداورالدکتوراحمدمحمود حسن شریف تشریف فرما ہوئے،الازھر شریف اورپاکستان کے خوش عقیدہ سُنی مسلمان محبت ِ رسول ؐ اورتصوّف وطریقت میں ہم مشرب ہونے کے سبب باہمی موانست کے رشتے میں پیوست ہیں۔اسی طرح وفاقی حکومت کے زیر اہتمام 12ربیع الاوّل کو اسلام آباد میں منعقدہ قومی سیرت کانفرنس میں رابطہ عالمِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی جو کہ امام حج بھی ہیں،اپنے ایک وقیع وفد کے ہمراہ شرکت کے بعد،لاہور میں تشریف فرما ہوئے۔ بادشاہی مسجد میں انھوں نے جمعۃ المبارک کا خطبہ دیا ،جس میں پاکستان کے ساتھ یکجہتی ،تقوی و تزکیہ اور محبت رسول ؐ جیسے عنوانات نمایاں رہے،یہاں مجھے علامہ اقبال کی شہرہ آفاق نظم ذوق و شوق کا شعر یاد آتا رہا ۔ آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو نکلے تیری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بُو یعنی اگر کائنات کو ایک آیت سمجھ لیا جائے تو اے عشق محبوب اس کا مشکل سے سمجھ آنے والا مطلب تُو ہے ،ارباب ظاہر اور ارباب ِباطن ۔۔۔دنیا بھر کے قافلے آپؐ کو ڈھونڈنے کے لیے نکتے ہیں ،حضورؐ سارے جہان کی اصل و بنیاد ہیں ،اگر حضورؐ نبی کریم ؐ کی ذات اقدس نہ ہو تو دنیا کی حقیقت ایک بے معنی لفظ سے زیادہ نہیں ۔ جزیرۂ عرب کا اکثر حصہ ریگستانوں،لق ودق صحرائوں اورخشک پہاڑوں پر مشتمل ہے،جہاں اس وقت گنتی کی چند آبادیاں اورباشندوں کی اکثریت بادیہ نشین تھی،لیکن اس جزیرۂ عرب کے جنوب مشرق اور شمال مغرب میں دوعالمی حکومتیں قائم تھیں،جنہیں متمدن دنیا پر بڑا اثرو رسوخ میسر تھا۔مشرق کے ساسانی حکمران بادشاہ’’ کِسریٰ‘‘ کے لقب سے موسوم اورایران اوراس کے اردگرد کے علاقے ان کے باج گزارتھے،جبکہ مغرب میں رومن مملکت، جس کا بادشاہ’’قیصر‘‘ کہلاتا ،مغربی دنیا کا متمدن علاقہ اس کے زیرنگیں تھا۔جزیرۂ عرب کے جنوب مشرق میں جو عربی مملکت تھی اُسے ہمیشہ کِسریٰ ایران کی حمایت وسرپرستی حاصل رہی، جبکہ جنوب مشرق میں قائم عرب حکومت کو قیصرِ روم کی تائیدو حمایت میسر تھی اوران کے باہمی تعلقات سے فریقین مستفید ہوتے تھے،گویا ان دوعالمی قوتوں نے متمدن دنیا کو آپس میں بانٹ رکھا تھا۔مغرب میں اہلِ روم اورمشرق میں اہلِ ایران ۔۔۔۔ان دونوں نے اپنے دفاع اور مفاد میں ،اپنی سرحدوں کے قریب عرب قبائل کی ’’بفرسٹیٹس ‘‘یعنی دومملکتوں کو جدا کرنے والی درمیانی مملکت ،قائم کر رکھی تھی۔ ایران والے اپنی سرحدوں پر واقع عرب قبائل کے حکمران طبقہ کی سرپرستی کرتے تھے اور یہ اس کے صلے میںان کو اپنے سپاہی اور افرادی قوت مہیا کرتے،جو رومی حملہ آور لشکروں کے ساتھ نبرد آزما ہوتے۔اس کے ساتھ یمن کا خطہ بھی معتبر اورپھر نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کے فرمان کے ساتھ محترم بھی ٹھہرا،کہ آپؐ نے اس کے لیے خیروبرکت کی دُعا فرمائی۔قیصر وکسریٰ کی طرح یہاں کے بادشاہ کا بھی ایک مخصوص اور مستقل ٹائٹل ،جوکہ’’ تُبّع ‘‘کے نام سے معروف تھا،یہ بھی اس عہد میں دنیا کے مقتدر طبقات کا حصہ تھا۔آپؐ کی بعثت سے ایک ہزار سال قبل یمن کا بادشاہ جو پوری دنیا کو فتح کرنے کی دُھن کے ساتھ یمن سے نکلا،جس ملک یا شہر کو فتح کرتا وہاں کے زُعما اور صاحبانِ علم وحکمت میں سے دس افراد کا انتخاب کرکے ،اپنے مصاحب کے طور پر ،لشکر میں شامل کرلیتا،عالمی فتوحات کے اس معرکے میں تبع کی فوج میںمحض گھوڑوں کی تعداد ایک لاکھ چونتیس ہزار جبکہ انفنٹری سوا لاکھ کے قریب تھی،علاوہ ازیںمختلف علاقوں اور خطوں سے جمع ہونے والے حکما اور دانشوروں کی تعداد بھی بڑھتے بڑھتے چار ہزار تک پہنچ گئی،اپنے انہی معرکوں کے دوران ،سرزمین عرب پر حملہ آور ہوتے ہوئے وہ مکہ کی سرحد پر آن پہنچا،یہاں اس کو ایک مختلف تجربہ ہوا،وہ جہاں بھی حملہ آور ہوتا ،مقامی آبادی اس کے لشکر کے جاہ وجلال اوررعب و داب کے سبب ،اس کے سامنے سرنگوں ہوجاتے،لیکن جب وہ مکہ میں داخل ہوا، تو مقامی لوگوں نے اس کی شان و شکوہ کا نہ کوئی نوٹس لیا اورنہ اس کے رعب ودبدبہ سے مرعوب ہوئے ،اس نے عمار یسا نامی اپنے وزیر خاص کو بلایا اوراہل مکہ کی اس بے التفاتی کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ سرکش بدوہیں،اپنے حال میں مست ۔۔۔لیکن اپنے شہر میں ایک مرکزی مقام جسے یہ کعبہ کہتے ہیں،اس پر بڑا فخر کرتے ،خود کو اس کا مجاور اورمتولی سمجھتے اور کسی کی طاقت اورقوت کو خاطر میں نہ لاتے ہیں۔بادشاہ نے ان کی اس طاقت کو ملیا میٹ کرنے کا منصوبہ بنالیا۔اس کا یہ ارادہ کرنا ہی تھا کہ اس کے سر میں ناقابلِ برداشت قسم کا شدید درد شروع ہو گیا،اور ساتھ اس کے دونوں کانوں ،آنکھوں ،ناک اور منہ سے بودار پانی پیپ کی طرح بہنے لگا،شاہی اطبا اور حکما ناکام ہوگئے،المختصر وہ سمجھ گیا کہ یہ کوئی امرِ سماوی ہے ،زمینی ہوتا تو علاج ممکن ہو جاتا۔بہرحال بادشاہ اس خیال سے تائب ہوا اوراپنے مکروہ ارادے دل ودماغ سے نکال کر توبہ کرکے کعبہ کے اوپر سات غلاف چڑھا کر ،اس کی عظمت وتوقیر کا معترف ہوا اوریہاں سے آگے سفر کرتا ہوا، وہ ایک سرسبز شاداب مقام پر پہنچا،جہاں پانی کا ایک چشمہ تھا،لشکر نے یہاں قیام کیا ،استفسار پر معلوم ہوا کہ اس مقام کو ’’یثرب‘‘ کہا جاتا ہے۔اگلے روز رخصت ہونے کا وقت آیا تو لشکر کے ساتھ صاحبانِ علم وفن اوراہل ِحکمت و بصیرت گروہ نے ساتھ چلنے سے انکار کرتے ہوئے ،اسی مقام پر قیام کی خواہش کردی۔یہ علما اور سکالرز جو کتبِ سماوی کے علوم سے آشنا تھے،نے کہا کہ یہ مقام پیغمبر آخرالزمان ؐ کا ’’دارالہجرہ‘‘ ہے اورآپؐ کی تشریف آوری سے یہ ’’مدینہ طیبہ‘‘ بن جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر قسمت ہمیں یہاں لے ہی آئی ہے تو اس کو چھوڑ کر جانا بڑی محرومی ہوگی اوراگر ہمیں ان کا زمانہ نہ بھی میسر آیا تو ہماری اولادیں اور نسلیں،تو اس آخری رسولؐ کی زیارت سے ضروربہرہ مند ہوں گے،انہوں نے کہا کہ اے بادشاہ! وہ جو کعبے کی حُرمت تھی ،وہ دراصل اس پیغمبر اعظم ؐکے سبب ہے ،وہ شہر ان کی ولادت گاہ ہے،اور ان کا مزار مقدس اس مقام پر ہوگا۔بادشاہ نے اُن چار سو علمائ،جنہوںنے وہاں رُکنے کا فیصلہ کیا،کے لیے چار سوگھر بنوائے،ان کی گھرداری اور آباد کاری کا اہتمام کیا، بادشاہ ان اہتمامات کے لیے از خود ایک سال تک وہاں رُکا رہا،اب جب وہ وہاں سے رُخصت ہونے لگا تو اُس نے رئیس العلماء کو بلوایا اور اپناایک پیغام محفوظ کروا یا کہ: ہمیں معلوم نہیں کتنا زمانہ پڑاہے محمدمصطفی ﷺ کی آمد اور بعثت کا ،مگر تم گواہ ہوجائو کہ میں ان پرایمان لے آیا اور ان کی آمد سے پہلے ،میں ان کا پہلا اُمتی بنتاہوں۔میں ایک خط لکھ کر تمہیں دیتا ہوں،اگرتمہاری زندگی میں آقاؐ آجائیں توان کو میرا خط دے دینا اور اگرتمہاری زندگی میں نہ آئیںتو پھر نسل بعد نسل اپنی اولاد کو دیتے جانا،اوروصیت کرتے جانا کہ جس نسل میںجس زمانے میں آقاؐ تشریف لائیں،میرا خط انہیں دے دیاجائے۔اُس نے خط میں لکھا:’’امابعد! اے محمد(ﷺ) میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی اُس کتاب پر ایمان لایا جو اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرمائے گا۔اورمیں اعلان کرتا ہوں کہ آپؐ کے دین میں آگیا ہوں اورآپؐ کی سنت پر جو آپ کا طریقہ ہوگا اس پر قائم ہوں۔اورآپ کے رب اورہر شے کے رب پر ایمان لے آیاہوں ۔’’اس کے بعد وہ مزید لکھتا ہے:‘‘اور اگر میں (اپنی زندگی میں) آپ کو نہ پاسکوں تومیری التجا ہے کہ قیامت کے دن میری شفاعت فرمادیجیے گا اورمجھے فراموش مت کیجئے گا۔کیوں کہ میںآپؐ کے پہلے امتیوں میں سے ہوں اور میں آپؐ کی آمد سے بھی پہلے آپؐ کی بیعت کی اورآپؐ کے ہماری طرف مبعوث کیے جانے سے بھی قبل آپ پر ایمان لے آیا۔اورمیں آپؐ کی ملت پر ہوں اور آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر ہوں۔‘‘یہ خط لکھ کر اُس نے آخر میں اپنی مہر لگادی اور لکھا:’’تبع الاول حمیری کی طرف سے خاتم النبیینؐ اور رب العالمین کے پیغمبر محمد بن عبداللہ ﷺ کی خدمت میں۔‘‘