بے ربط کر کے رکھ دیئے اس نے حواس بھی جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہی پاس بھی دیکھوں جو دل میں تو سمندر ہے موجزن لیکن لبوں پہ کھیلتی صحرا کی پیاس بھی یہ ساری باتیں اپنی جگہ کہ کون کہاںہے اور کس اعلیٰ سطح پر ہے مگر اے سعد کوئی شے بھی اضافی نہیں بنیں یہاں۔ زیور ہے اس زمین کا یہ عاجز سی گھاس بھی۔ آپ پرویز الٰہی کو کیا سمجھ بیٹھے تھے وہ پکی گولیاں کھیلتے رہے ہیں۔ سیاست میں وہ زرداری سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اچھے وقت کا انتظار کرتے رہے اور اگر انتظار اچھے وقت کا کیا جائے تو وہ ضرور آتا ہے۔ اسی کو صبر کا پھل کہتے ہیں۔ پھر اب جو پرویزالٰہی سے پوچھتے ہیں کہ کیا بات ہے انہیں منیر نیازی کا شعر سنا دینا چاہیے: پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو حسن والوں کی سادگی نہ گئی اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کسی کو کسی پر اعتبار نہیں۔ ویسے یہ خاصیت یا خوبی نوازشریف میں پوری طرح موجود ہے۔ انہوں نے تو کسی جنرل پر بھی اعتبار نہیں کیا مگر عمران خان شاید بالکل ہی متضاد ہیں ۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ کبھی عمران خان اپنی سب سے بڑی کامیابی باجوہ کے ساتھ ایک پیچ پر رہنے کو بتاتے تھے اور اب وہ اس کو زندگی کی سب سے بڑی غلطی بتاتے ہیں۔ کسی جنرل کے ساتھ ایک پیج پر رہنے کے کچھ تقاضے ہیں جوصرف پرویزالٰہی پورے کرسکتے ہیں: ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی ان دنوں بہت ہی مزیدار بیانات سننے کو مل رہے ہیں اور تو اور عثمان بزدار بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ ان کی باتیں سننے کے ہم بھی متمنی تھے مگر وہ کہنے لگے میرے دل میں اتنے راز ہیں کہ بتادوں تو طوفان آ جائے مگر وہ شاید ٹھنڈے آدمی ہیں۔ طوفان لانے کے حق میں نہیں وہ بھی موسم سرما میں۔ اب تو سردیوں کی پہلی دھند بھی پڑ چکی۔ اچھا کیا بزدار صاحب نے کہ رازوں کو راز ہی رہنے دیا لیکن افسوس کہ ان کی باتیں چوہدری نثار کی ہر پریس کانفرنس کی طرح بے نتیجہ ہی رہیں مگر بزدار صاحب کا انجام پرویزالٰہی پر آ کر بامعنی ہوا۔ بہرحال جس بات کا ڈر تھا وہ آ کر رہی کہ سب کا کٹھا چٹھہ باہر آ گیا کہ اب یہ نہیں کہ فوج میں سیاست کی بات ہورہی ہے اب سیاست میں فوج کی بات بڑے دھڑلے سے ہو رہی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی جنرل کے ریٹائر ہوتے ہی اسے سینگوں پر دھر لیا جائے۔ بات یہاں تک آن پہنچی کہ باجوہ صاحب باقاعدہ ہتک عزت کا کیس دائر کرنے جا رہے ہیں۔ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا کہ سیاست میں کسی جنرل کی دبنگ انٹری دکھائی جائے۔ جنرل فیض کا باقاعدہ استقبال کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف پرویزالٰہی جنرل فیض حمید کے کارنامے بیان کر رہے ہیں کہ ان کے اور مونس کے کیس ختم کرنے کے حق میں نہیں تھے اور یہ بھی بتایا کہ باجوہ نے انہیں باز کیا۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے پھر بھی عمران خان کی چوہدری پرویزالٰہی کے حوالے سے خوش گمانی ان کے بڑے سیاستدان ہونے کی دلیل ہے: نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونجیئے اپنی جبیں سے گویا سب ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں اور کسی کو کسی پر اعتماد نہیں۔ پرویزالٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہو چکی ہے شاید یہ ایسی قسم کی تحریکوں کا سال ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع ہو چکی۔ گو کوئی بھی اعتماد کے قابل نہیں۔ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے خط بھی لکھا ہے۔ ہماری بات چھوڑیئے اعتزاز احسن کی بات تو وزن رکھتی ہے کہ وہ اب تک عمران خان کے حق میں بولتے آئے ہیں وہ بھی چکرا گئے ہیں کہ آخر خان صاحب کر کیا رہے ہیں کہ وہ نہ صرف سیاست میں اکیلے تھے اور اب پارٹی میں بھی اکیلے رہ گئے ہیں۔ اب کیا پچھتائے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت: سعد ایسے ہی ہم بھی چاہتے تھے جیسے اس نے ہمیں تباہ کیا ایک کام تو بہرحال اچھا ہوا کہ خان صاحب کی سیاست کی بدولت کچھ بھی چھپا ہوا نہیں رہ گیا۔ سب کچھ سر بازار آ گیا۔ میں ہی نہیں پوری قوم اس پر خوش ہو گئی کہ سب لٹیروں کو محاسبہ کیا جائے۔ ہائیکورٹ نے 1947ء سے توشہ خانہ سے تحائف لینے والی تمام شخصیات کی تفصیل طلب کی ہے۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ صرف عمران خان کو معطون نہ کیا جائے۔ باہر سے ملنے والے تحائف ریاست کی امانت ہیں۔ نہ کوئی آپ کے باپ کا مال ہے۔ عوام کی دلچسپی تو اسی میں ہے کہ ان کو ریلیف کیا ملتا ہے۔ میں تو صرف یہ خبر اچھی لگی کہ شہبازشریف نے کہا ہے کہ بجلی اور گیس کے صارفین پرکوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔ خدشہ یہ ہے کہ کہیں یہ صرف سیاسی بیان ہی نہ ہو۔ عملی طور پر کچھ کریں گے تو لوگ مطمئن ہوں گے وگرنہ ان پر عوام کا بہت قرض ہے کہ انہوں نے آتے ہی پٹرول ڈبل کر دیا تھا اور بجلی کی قیمت بھی بڑھائی تھی۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی کہ عامر متین کے بقول اس وقت کوئی بھی لوٹا بننے کا رسک نہیں لے گا۔ میں دیر تک ہنستا رہا کہ وہ کون لوگ ہیں جو لوٹا بنے بغیر کمٹڈ سیاستدان ہیں‘ کم و بیشتر سب ہی اس عزت سے مستفید ہو چکے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صبح و شام پیپلزپارٹی کے لوگ پی ٹی آئی میں آ رہے تھے اور یہ یقین ہونے لگا تھا کہ پی ٹی آئی پر کسی سازش کے تحت قبضہ کیا جارہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے سب کہتے تھے کہ کسی وقت بھی وہ عمران خان کی جگہ لیں۔ اب بھی تو عمران خان کی بحیثیت ممبر قومی اسمبلی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی ہے اور نعم البدل سامنے آنے کو ہے۔ بات میں کر رہا تھا کہ لوٹا بننے کی۔کسی حد تک اگر کوئی نظریاتی لوگ ہیں تو وہ پیپلزپارٹی کے ہیں۔ جماعت اسلامی تو خیر سے ہے ہی نظریاتی۔ آخر میں شہزاد قمر کے دو اشعار: لے نہ ڈوبے گا میرے دشمن کو اے میرے دل ترا دریا ہونا زندگی کھول لے جتنے بھی محاذ ہم نے سیکھا نہیں پسپا ہونا