دن جتنے بھی مشکل ہوں گزر جاتے ہیں اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔بیشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے یہ کتاب ازل میں لکھا ہے‘ جس میں کوئی شک نہیں، نہ وہ دن رہے ہیں نہ یہ دن رہیں گے۔جنگ ہنڈولے کی طرح ہے کبھی ایک پلڑا جھکتا ہے کبھی دوسرا مگر یہ جنگ نہیں صحت مند مقابلہ تھا‘ دلچسپ پرکشش تماشائیوں میں ایسا جوش کہ وہ جوق در جوق کھیل کے میدانوں کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں۔ان کا یہ اشتیاق ایک کھلاڑی کے لئے ایک کھلاڑی جسے وہ کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں،اسے میدان میں مقابلہ کرتے دیکھنا سب کی آرزو ہے۔وہ اس امید کے ساتھ دوڑے چلے آتے ہیں کہ ان کا پسندیدہ کھلاڑی ہی میدان مارے گا۔جیت کا انعام دونوں ہاتھوں میں اٹھائے وہ تماشائیوں کے سامنے بلند کرے اور تماشائی اس ایک کے لئے داد و تحسین کے نعرے لگاتے خوش خوش گھروں کو لوٹ جائیں‘ کھیل کا میدان کھچا کھچ بھر گیا ہے، تماشائی اتنے کہ اب تل دھرنے کو جگہ نہیں رہی‘ ان کا پسندیدہ کھلاڑی اکھاڑے میں اتر چکا ہے‘ تماشائیوں کا جوش و خروش دیدنی ہے۔کیا ہوا ؟ وقت نکلا جاتا ہے، مقابلے کے لئے دیا گیا، وقت کب کا گزر چکا‘ چیلنج کرنے والا ہر دلعزیز اکیلا میدان میں ہے دوسرا کدھر ہے؟ جس نے چیلنج قبول کیا تھا، وہ پیشہ ور تجربہ کار کھلاڑی جو ماضی میں میدان پر میدان مارتا رہا‘ اس نئے نوآموز کے مقابلے میں اب تک کیوں نہیں آیا؟ تماشائیوں کا جوش و خروش جو دہائیوں سے تجربہ کار پیشہ ور کھلاڑی کی طرف تھا، اب ان کی چاہت نئے اور نوآموز کی طرف منتقل ہو چکی ہے، اب سارے کے بارے تماشائی نئے کھلاڑی کو کامیاب اور جیتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔تماشائیوں کا حریف کے لئے جوش اور محبت دیکھ کر تجربہ کار کھلاڑی کا دل بیٹھا جا رہا ہے‘ کھیل کے میدان کا نظارہ تجربہ کار ٹیلی ویژن سکرین پر اپنے گھر بیٹھے دیکھ رہا تھا، اس کی ہمت جواب دینے لگی وہ میدان میں اترنے سے گریزاں ہوا‘ کھیل کی انتظامیہ انتظار کرتے کرتے پہلے بیزار پھر تشویش میں مبتلا ہو گئی، فون پر فون کئے گئے جواب ندارد ‘ پیغام بھیجے‘ منیجر خود گھر تک پہنچ گیا جواب ملا میں اکیلا مقابلہ نہیں کر سکتا، میرے ساتھ کوئی اور تجربہ کار بھی اس کے مقابلے کے لئے میدان میں اتریں گے نیا کھلاڑی اس قدر پرامید اور خود پر بھروسہ اور تماشائیوں کی داد ہی میرا اثاثہ ہے، میں اکیلا ہی مقابلہ کروں گا‘ یوں ایک کے مقابلے میں دو‘ تین‘ چار ہوتے ہوتے گنتی تیرہ تک جا پہنچی، وہ اکیلا تیرہ کے مقابلے پر بھی تیار کھڑا ہے‘ اب تیرہ کی مشاورت جاری ہے‘ کون کھلاڑی کہاں ہاتھ ڈالے گا۔بازو کون پکڑے ٹانگ پر کون ہاتھ ڈالے‘ پیچھے سے جپھا کون مارے‘ دن پر دن مہینوں گزر گئے، یہ آپس میں فیصلہ نہیں کر پا رہے‘ ایک کے مقابلے میں تیرہ(13) جس ایک کے مقابلے میں تیرہ تجربہ کار اور آزمودہ کھلاڑی میدان میں اترنے سے گریزاں ہوں، اس کی شہرت تو قریہ قریہ بستی بستی ہوتی ہوئی دور دیس تک پھیل جائے گی۔اب دیس بدیس دنیا کے اس سرے سے اس کونے تک اس کی شہرت پھیل گئی، مشرق و مغرب شمال جنوب اخبار نویس چلے آتے ہیں۔تجزیہ کار‘ ٹیلی ویژن میزبان‘ مشہور زمانہ انٹرویو کرنے والے قطار اندر قطار اس کی باتیں سننے‘ تصویر بنانے‘ انٹرویو نشر کرنے کے لئے ٹوٹے پڑتے ہیں‘ نئے نئے زاویے سے اس کی تصویریں چھپتی ہیں‘ اس کے خیالات نشر کئے جاتے ہیں‘ اس کے انٹرویو سنے جاتے ہیں، اس کی خبریں پڑھی جاتی ہیں جب دنیا بھر کے اخبارات اور ذرائع ابلاغ ایک میدان میں جمع ہونگے پل پل کی خبر بھیجیں، ایک کے مقابلے درجن بھر کھلاڑیوں کو بدکتا ہوا دیکھیں تو ساری دنیا متوجہ ہو گئی‘ اب تماشائیوں کے خیالات اور سروے نشر ہونے لگے تماشائیوں میں 70فیصد ایک کھلاڑی کو ’’جیتا‘‘ہوا دیکھنا چاہتے، جب مقابل کو ڈرے گھبرائے دیکھا تو ان کی رائے اور بھی بدلنے لگی تازہ ترین تماشائیوں کے جائزے میں یہ اسی 80سے ہوتی ہوئی نوے ’’90‘‘ کے ہندسے کو چھونے لگی ہے‘ لوگوں کی رائے ’’زبان خلق نقارہ خدا‘‘ اب حوصلہ کس میں، دم کس کا ہے کہ میدان میں اترے؟نو آموز کھلاڑی نے اپنے تو اپنے بیگانوں کو بھی حیران اور ششدر کر دیا۔ایسا دھن کا پکا میدان کا سچا کہ اس نے ٹلنے سے انکار کر دیا‘ تیرہ ’’13‘‘ تجربہ کاروں نے کہا ہم میدان میں تب اتریں گے جب آپ اس کے ساتھ کھیلنے والے چند ایسے کھلاڑی تلاش کر کے ہماری صف میں شامل کریں، جو اس کے دائو ’پیج ‘ حربے‘ طاقت اور کمزوری سب سے واقف ہوں تاکہ ہم اس کا توڑ کر سکیں۔حریف ایسے لاڈلے اور اکیلا کھلاڑی ایسا پکا کہ ان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا گیا‘ راز دانوں کا ایک گروہ نکال کر حریفوں کا حلیف بن گیا یہ ہوئے ’’ایک بمقابلہ چودہ‘‘ اگلا مطالبہ وہ یہ ہوا کہ ریفری بھی ہمارا ہو گا‘ یہ بھی منظور ہوا؟ کم بختو! اب تو میدان میں اترو‘ نہیں‘ نہیں ابھی نہیں؟ اور کیا رہ گیا ؟ اکھاڑے کا انتظام و انصرام بھی ہمارے حوالے ہو‘ وہ تو پہلے سے آپ کی حفاظت اور اختیار میں ہے اور کیا چاہیے؟ کھیل کے میدان کے سارے ضابطے سارے اختیار‘ جی ہاں وہ بھی آپ کے‘ بس ایک مطالبہ‘ آخری ایک چھوٹا سا مطالبہ مان لیں تو ہم میدان میں نکلنے اور مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہونگے‘ وہ کیا ہے؟ کھیل کے میدان میں ایک بڑا آپریشن کریں‘ سارے تماشائیوں کو مار مار کر میدان سے بھگا دیجیے‘ تماشائی اس کے لئے نعرے لگاتے اور خواتین تماشائی اندر ہی اندر آیات قرآنی تلاوت کر کے ’’اس ایک‘‘ کے لئے دعائیں کرتی ہیں‘ تماشائیوں کے نعرے سے ہمارے دل بیٹھے جاتے اور سنجیدہ خواتین کی دعائیں ہماری آرزوئوں کو راکھ بنا دیتی ہیں، ان سب کو میدان سے دور بھگا دیا جائے اور خالی سٹیڈیم کے اندر باہر ہماری انتظامیہ ہمارے تماشائی بھر دیے جائیں‘ ٹھیک ہے ہم نے آپ کا ہر مطالبہ مان لیا۔انتظام بھی آپ کا انتظامیہ بھی آپ کی تماشائیوں کو مار بھگا دیا گیا‘ اب میدان خالی ہے بس ایک اکیلا کھلاڑی وہ بھی نو آموز اور آپ چودہ سب مان لیا اب میدان میں اتر بھی چکو‘ہاں ہاں آتے ہیں‘ پہلے میدان کو ہمارے اپنے تماشائیوں سے بھر دو؟ آپ کے اپنے چودہ کھلاڑیوں کے تماشائی ہیں کہاں؟ ہم نے منا دی کروائی‘ اعلان کئے‘ اشتہارات دیے ڈھونڈ چکے‘ آپ کا تماشائی طویل و عرض میں کوئی نہیں، ہاں دنیا میں کہیں دور کہیں موجود ہو تو کہہ سنائو ہم اٹھا لائیں گے۔ بس آپ صرف نشاندہی کریں‘ ہاں ہاں مقابلہ بھی ہم کریں‘ میدان میں اتر کر اور اپنے حمایت یافتہ تماشائیوں کی نشاندہی بھی ہم کریں؟ آخر آپ کس مرض کی دوا ہو‘ اتنا سا کام بھی کر نہیں سکتے؟ آخر آپ کس مرض کی دوا ہو؟ اچھا اگر تماشائیوں کا کوئی انتظام نہیں تو سب ذرائع ابلاغ کو کھیل کے میدان سے دور ہٹائو صرف ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کو قریب کسی بڑے ہال میں جمع کر کے بڑی سکرین نصب کر دی جائے۔اس سکرین پر بس ایک تصویر آ کر ٹھہر جائے‘ کون سی تصویر؟ کھلاڑی کا لاہور جلسہ یاد ہے نا؟ اس کی تصویر کو سٹیڈیم کے تماشائی ظاہر کیا جائے‘ کھچا کھچا پرجوش تماشائیوں کا میدان مگر اس میں تو بے شمار روشنیاں اور جھنڈے بھی ہونگے‘ کھلاڑی کی تحریک کے جھنڈے‘ کچھ آپ بھی کر دو؟سب ہم سے پوچھو گے؟ ایف بی آئی کس مرض کی دوا ہے؟ اس سے کہو جدید تکنیک سے کھلاڑی کے جھنڈے ہٹا کر اتحادیوں کے جھنڈے دکھائیں! ٹھیک یہ بھی ہو جائے گا ایک اور بات ! سارے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کو کھیل شروع ہونے سے پہلے نکال دو! یہ نہیں کر سکتے‘ بہت مشکل ہے‘ بڑی بدنامی ہو گی۔ دیکھا دیکھا ہم تو پہلے سے جانتے ہیں۔تم اس کے ساتھ ملے ہوئے ہو؟ ہیں ناں؟