عشرہ شانِ رحمۃٌ للعالمین کے سلسلے میں ، جمعتہ المبارک کے موقع پر ،صوبہ بھرمیں رحمۃٌ للعالمینﷺ کانفرنسز کا اہتمام ہوااور گزشتہ روزلاہور میں صوبائی سیرت کانفرنس کے موقع پر صوبائی مقابلہ کتب سیر ت و مجموعہ ہائے نعت کے حوالے سے یکم محرم الحرام یا 30 ذی الحجہ1443ئ، پنجاب سے طبع ہونے والی بہترین کتب کو اعزازات عطا ہوئے ۔اس کے ساتھ الحمراء آرٹ گیلری میں کتبِ سیرت ، اسلامیات و پاکستانیات کے حوالے سے نمائشِ کتب کا اہتمام بھی ازحد دلنشین اور علم آفریں تھا، اسی طرح قومی سطح پر یہ اہتمامات ، اس سے بھی بڑھ کر جاری ہیں 11--- ربیع الاوّل، یعنی گزشتہ شام ، پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس اسلا م آباد سے اور آج سرینا ہوٹل میں قومی سطح پر اعزازات پانے والے مجلات و مقالات اور کتبِ سیرت و نعت کو انعامات کی عطائیگی لائقِ ستائش ہے ، جس میں محکمہ اوقاف و مذہبی امو رپنجاب کے تحقیقی مجلہ " معارف اولیائ" کو بھی خصوصی اعزاز و انعام عطا ہوا۔جبکہ 12 ربیع الاوّل کو بین الاقوامی سیرت النبی ﷺ کانفرنس1444ھ کے افتتاحی سیشن میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان مہمان ِ خصوصی اور اختتامی سیشن میں جناب وزیر اعظم پاکستان تشریف فرما ہوں گے ۔ گزشتہ روز صوبائی سطح پر منعقدہ " صوبائی رحمۃٌ للعالمینﷺ کانفرنس" ازحد وقیع اور معتبر تھی ، جس میں نامور جامعات کے صدر نشین اور معروف علماء و سکالرز نے اپنے خطبات و مقالات سے علمی و دینی فیضان کو عام کیا ۔ کانفرنس کا افتتاحیہ اور استقبالیہ پیش کرنے کی سعادت میسر آئی ، کانفرنس میں مولانا ظفر علی خان کے نعتیہ اشعار کاغلبہ رہا: اے خاورِ حجاز کے رخشندہ آفتاب صبحِ ازل ہے تیری تجلی سے فیضاب چُوما ہے قدسیوں نے تیرے آستان کو تھامی ہے آسمان نے جھُک کر تیری رکاب مولانا ظفر علی خان شعلہ بیان خطیب، انقلاب پسند ادیب اور ہمہ گیر شاعر تھے، مذہبی موضوعات اور بالخصوص نعتیہ شاعری میں ذاتِ رسالت مآب ﷺ سے ان کی محبت و عقیدت اور جذبہ عشقِ رسول، خوب غالب ہوتا ، انہوں نے مروجہ نعتیہ اسلوب سے ، اپنا انداز منفرد اور معتبر رکھا اور کہیں کہیں تغزل کے محاسن اور بعض مقامات پر از حد سادگی اور برجستگی ، جیسے : دل جس سے زندہ ہے، وہ تمنا تمہی تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں، وہ دنیا تمہی تو ہو جلتے ہیں جبرائیل کے پَر جس مقام پر اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہی تو ہو پھُوٹا جو سینۂ شب تار الست سے اس نور اولیں کا اجالا تمہی تو ہو سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ تمہیں تو ہو کیا وارفتگی اور اثر آفرینی ۔۔۔ بعض اوقات وہ ایک ایک لفظ میں پورے موضوع کو سمو دیتے ہیں، جیسے محررہ آخری شعر کا مصرعہ اولیٰ، جس میں " اَلَسْت"کا ذکر ہوا ، جس میں انسانی ارواح کے اُس عظیم اجتماع کا ذکر ہے ، جس میں عظمتِ مصطفی ﷺ کا اقرار و اظہار ہوا۔ آج کے اس مبارک دن کی مناسبت سے "عالمِ ارواح کے میثاق"کی بابت جاننا ضروری ہے۔ میثاق سے مراد وہ عہد، پختہ عہد اور حلف ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کبھی تمام نوعِ انسانی کی ارواح سے اور کبھی صرف انبیا و رسل اور کبھی رُسلِ عظام کی اَرواح سے لیا۔ گویا عالمِ ارواح میں تین میثاق ہوئے، ان میں سے ایک میثاق کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت 172میں یوں کیا گیا: ترجمہ: "اور (یاد کیجئے!) جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اور ان کو انہی کی جانوں پر گواہ بنایا (اور فرمایا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ؟ وہ (سب) بول اٹھے : کیوں نہیں؟ (تو ہی ہمارا رب ہے، ) ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ (نہ) کہو کہ ہم اس عہد سے بے خبر تھے "۔ یہ پہلا میثاق اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام انسانوں کی روحوں سے اپنی توحید اور اُلوہیت کا لیا جس میں اللہ رب العزت نے ہر انسانی روح سے یہ عہد لیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایک مانے گا، اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لائے گا اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا۔ اسے "میثاقِ اَلَسْت"بھی کہتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ یہ میثاق مقام عرفات میں لیا گیا ، اس وقت حضرت آدمؑ کی پشت مبارک سے ، تمام انسانوں کو ، جو قیامت تک ان کی نسل سے اس دنیا میں پید ا ہونے والے تھے ، روحوں کی شکل میں ، ان کے ساتھ متشکل کیا اور پھر اللہ رب العزت نے انہیں اپنے سامنے (سورج کی شعاعوں میں نظر آنے والے )ذرات کی شکل میں بکھیردیا اور پھر ان سے براہ ِ راست کلام فرمایا ۔ اس کے بعد دوسرا میثاق تمام انبیا اور رسولوں کی اروح سے لیا گیا ۔ یہ میثاقِ نبوت تھا ، جو اس امر کا اعلان تھا کہ تمہیں نبوت عطاکی جائے گی اور اپنی رسالت کا فریضہ ادا کرنے کے لیے تم اپنے اپنے وقت پر مبعوث کیے جاؤ گے اور تمہارے یہ فرائضِ نبوت و رسالت فروغِ دین کے لیے ہوں گے۔ جس طرح کسی کو ایک عہدے پر فائز کیا جاتا ہے، تو اس تقرری سے پہلے ایک ڈیکلریشن کے طور پر ایک رسم حلف برداری ہوتی ہے ۔ اُسی طرح انبیا کرام علیہم السلام کی حلف برداری کی یہ ایک روحانی تقریب تھی۔ تیسرا میثاق بھی صرف انبیاء اور رُسلِ عظام علیہم السلام سے تھا اور وہ میثاق اُن سے نبوت و رسالتِ محمدی ﷺ پر ایمان لانے کا تھا۔ ہر نبی اور ہر رسول سے یہ وعدہ لیا گیا کہ وہ پیغمبر آخر الزماں سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائیں گے اور ان کے پیغمبرانہ مشن کی مدد کریں گے ۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ ربُّ العزت نے ارواح انسانی ، جس میں انبیاء اور غیر انبیاء سب شامل تھے، سے پوچھا " اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ"کہ کیا میں تمہارا رب ہوں؟ تو اُس وقت بھی ارواح نوع انسانی کی قیادت و سیادت کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ آگے بڑھے اور آپ ﷺ ہی کی زبان سے " بَلٰی "کا کلمہ نکلا ، جس کی اقتداء میں دوسروں کو گواہی دینے کا سلیقہ عطا ہوا۔اس مقام کو بیان کرنے کے لیے پیر مہر علی شاہ صاحبؒ نے کیا خوبصورت صوفیانہ پیرایہ اختیار فرمایا : کُن فیکون تاں کَل دی گَل ہے، اَساں اَگے پریت لگائی تُوں میں حَرف نشان نہ آہا، جدوں دِتّی مِیم گواہی یعنی کن فیکون تو کل کی بات ہے ہم نے اُس سے بہت پہلے پریت لگائی تھی ،"میم"نے اُس وقت گواہی دی جب تیرا میرا نشان بھی نہ تھا۔ اُس وقت کے آثار ہمیں اب بھی نظر آ رہے ہیں۔ اے مہر علی شاہ دونوں کو ایک دوسرے کی طلب تھی اس لیے تو بیٹھے ہیں۔