تاریخ میں سلجوقی وزیر اعظم نظام الملک طوسی نے حکومت اور سیاست کے حوالے ’’سیاست نامہ‘‘ کتاب لکھی، جس میں حکمرانی کے 40سنہری اصول رقم کئے، اس کتاب کو ہر دور میں عالمی پذیرائی میسر رہی، کتاب میں ایک تمثیلی اصول یہ ہے کہ عوام (رعایا) بھیڑ‘ بکریوں کا ریوڑ ہے۔چوکیدارہ کے باوجود ہر رات ایک بکری کم ہو جاتی اور گمشدگی کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔ریوڑ کے ذمہ دار نے چوکیدار کے ساتھ رتجگا کیا اور نصف شب کے بعد دیکھا کہ جنگل سے ایک سایہ(بھیڑیا) آیا اور واپسی دو سایے جنگل میں لوٹے۔ذمہ دار مالک یا حاکم اعلیٰ نے چوکیدار کے ساتھ ایک معاون کتا نتھی کر دیا۔چند دن سکون رہا اور تمام ریوڑ محفوظ رہا مگر جلد ہی پرانی کہانی دہرائی گئی اور ہر رات ایک ایک بکری کم ہونا شروع ہو گئی۔پہلے معاون کتا بھونکتا تھا اور چوکیدار بیدار ہو جاتا تھا۔اب کتا بھونکتا نہیں اور ریوڑ کم ہونا شروع ہو گیا۔ذمہ دار مالک نے دوبارہ ریوڑ ‘ چوکیدار اور معاون کتے کے ساتھ رات گزاری اور دیکھا کہ اب جنگل سے دو سایے(بھیڑیا اور کتیا) ریوڑ کی جانب آئے۔کتیا اپنی ہم جنس سے مصروف کار رہی اور بھیڑیا بکری لے اڑا اور سب شیروشکر سے سیراب رہے، اب ذمہ دار مالک نے وہ پالیسی اپنائی کہ نہ رہے بانس‘ نہ بجے بانسری۔پاکستان میں عالمی بانسری کا سُر بے سرا ہوکر ماحول کو خراب کر رہا ہے۔فی الحال امریکہ عالمی اتحادی ممالک کا ذمہ دار نمائندہ بلکہ ترجمان ہے۔امریکہ نے صدر جنرل پرویز مشرف کی باعزت رخصتی کے وقت سرکاری بیان دیا کہ مذکورہ رخصتی‘ پالیسی کی تبدیلی ہے۔ناراضی نہیں۔اب فوجی آمریت کا دور ختم اور جمہوریت کا بول بولا ہو گا۔افواج پاکستان بھی جمہوری ماتحتی میں رہیں گی۔پاکستان کو جبری جمہوریت کی ضرورت ہے یعنی حالات خواہ کچھ بھی ہوں۔جمہوریت پر آمریت کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔نیز پاکستان کی مقتدر اشرافیہ (جمہوری و فوجی یا سول ملٹری) کو امریکہ نواز پالیسی سے انحراف کی اجازت نہ ہو گی باالفاظ دیگر پاکستان کا نظام اور انتظام امریکی مرضی کا ہو گا۔جس کے لئے پاکستان میں سول ملٹری گٹھ جوڑ بھی امریکہ نواز رہے گا۔مگر قرائن کے مطابق سب کچھ مرضی کا نہ رہا۔جمہوریت میں الیکشن‘ الیکشن کھیلنے کی مجبوری نے نظام اور انتظام کو ہر دو صورت متاثر کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ‘ ریاست اور ادارے انہونی تبدیلیوں کا شکار ہیں۔آیا ریاست مذکورہ تبدیلیوں کی متحمل ہو سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب وقت اور قرائن متعین کرتے ہیں۔ضروری نہیں کہ تبدیلی کے کارساز مطلوبہ نتائج کو پا سکیں۔اہداف واضح ہو سکتے ہیں مگر نتائج غیر واضح‘ مبہم اور مبہوت کن یعنی حیران کن ہو سکتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کوشش انسانی ‘کامیابی منجانب اللہ‘ اب تک مغرب کی بالادستی میں برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور امریکہ نے اہم کردار ادا کیا ہے اب ان کا کردار کم اور کچھ ہی عرصہ میں معدوم ہو جائے گا۔شاعر مشرق اور پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال نے مغربی زوال کا سبب ملحدانہ مادیت قرار دیا ہے، جس کے باعث مغرب اخلاق اور اصول و قواعد سے عاری سوداگری کا پیکر بن گیا ہے۔بر کمالے را زوالے۔مغرب ڈوب رہا ہے اور مشرق ابھر رہا ہے مگر وطن عزیز کی بڑی آبادی مغرب زدہ بلکہ مغرب گزیدہ ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بن گئی ہے۔فارسی زبان کا شعر ہے کہ اگر نمک خوار قیدی کو پنجرے سے نکال کر آزاد کیا جائے تو وہ آزاد اڑان کی بجائے قید خانے یعنی پنجرے کے باہر ڈیرہ ڈال دیتا ہے۔یعنی غلامی آزادی کا شعور بھی چھین لیتی ہے۔پاکستان نے برطانیہ اور مغربی نظام اور انتظام سے آزادی حاصل کی مگر قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات اور شہادت کے بعد برطانوی پنجرے کے سامنے ڈیرے ڈال دیے۔ دنیا میں مرضی دو ہیں۔ایک مرضی عالمی کارسازوں اور دوسری دنیا بنانے والے کی ہے۔پاکستان میں عالمی کازسازوں کے لئے سول ملٹری مقتدر مافیا سہولت کار رہا ہے۔مگر یہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مخلوق یعنی بندوں کا بنایا نظام اور انتظام بھی بوسیدہ اور بوجھل ہو جاتا ہے اور حقیقت عفریت بن کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔حقیقت سے فرار ناممکن ہوتا ہے۔حقیقت تاویل تعبیر اور وقتی بیانیہ سے تاخیری گرد میں لپٹ جاتی ہے مگر حقیقت‘ حقیقت رہتی ہے ایمان‘ اتحاد‘ تنظیم‘ ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ پاکستان کے عوام و خواص کے دل سے نکالا نہیں جا سکا۔دلوں میں گرد‘زنگ اور قفل ضرور لگا،جس کے نتیجے میں پاکستان دوست اور دشمن کی شناخت میں غافل ہو گیا۔عالمی کارساز پاکستان کو اپنی مرضی کے دوست دینا چاہتا ہے جبکہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دین و وطن کے ازلی دشمن‘ اور دشمنوں کو بھی عزیز بلکہ معزز ترین دوست کا درجہ دیں۔جبکہ دین و وطن کے دشمنوں کو دفاعی حلیف اور سٹریٹجک شراکت دار بنا کر پاکستان کے خلاف کسی حد تک کامیاب پالیسی کے سہولت کار بنے بیٹھے ہیں۔9مئی 2023ء کی سول ملٹری مافیا کی ناکام کازسازی نے بساط پلٹ دی۔ملٹری (افواج) ذاتی صفائی اور تطہیر(self purging)کی راہ اپنائی جبکہ اب عالمی کازسازوں کے لئے سول یعنی جمہوری کھیل کا پتہ رہ گیا ہے۔یہ پتہ کھیلنے اور کب تک چلے گا؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔انتظام میں دراڑ آ گئی ہے۔اب نظام کی باری ہے۔نظام کے تسلسل اور بقا کے لئے ساری جمہوری جماعتیں یکجان ہیں۔وقت نے دائیں بائیں کی تمیز اور تفریق بھی ختم کر دی۔ علاوہ ازیں پاکستانی جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ تین بڑی نام نہاد سیاسی جماعتیں دو تہائی(2/3) اکثریت کے لئے کوشاں ہیں تاکہ پاکستان کے موجودہ آئین کو عالمی مرضی کے مطابق ڈھال دیا جائے قرائن کے مطابق مذکورہ مرضی کے خلاف رضائے الٰہی (divine will)ہے۔1977ء کا جھرلو الیکشن اور نتائج لاڈلے کی حالت زار غیر معمولی صورتحال کی عکاس ہیں۔نواز کی دو تہائی اکثریت پر ’’امیر المومنین بننے‘‘ اور ’’شریعت بل‘ کسی سے پوشیدہ نہیں۔موجودہ ’’جمہوری المیہ‘ عالمی کازسازوں اور زرداری کی جلد بازی ہے۔زمین ہموار نہیں مگر زرداری نے سفر کا آغاز نواز سے دوری اور نیازی سے یاری کے ذریعے کر دیا ہے۔جبکہ نیازی کے سہولت کاروں کو بن مانگے استعفیٰ دینا پڑا اور ادارے میں بھی 9مئی کے سانحہ کے بعد ’’پہلی سی محبت‘‘ نہ رہی۔نواز‘ زرداری سیاسی اتحاد جمہوری سلامتی اور نتائج کو تادیر لے کر چل سکتا تھا۔مگر الیکشن سے قبل ’’انتخابی پینترے‘‘ جمہوری نوید سے زیادہ وعید ہیں۔جمہوریت کا حسن ہے کہ ہر سیاسی پارٹی سرکارسازی کا خواب اور آشا پالے حقیقت سے روگردانی المیہ بن جاتی ہے۔1971ء کے انتخابی نتائج نے بے لگام ہوس اقتدار کے باعث وطن عزیز کو دولخت کر دیا۔اس بار وطن عزیز دولخت یا چار لخت نہیں ہو گا کیونکہ 9مئی سانحہ نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔اگر جمہوری جماعتوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو احتساب کا نرم گوشہ‘ گرم بلکہ گرم ترین ہو سکتا ہے۔آئر لینڈ کے قومی شاعر W.B yeatsنے خوب کہا ہے کہ میں وطن عزیز کی سرزمین میں اپنے خواب بکھیر رکھے ہیں۔اس سرزمین پر آہستگی اور شائستگی سے چلو کیونکہ تمہارے قدم اور میرے خوابوں کی بساط کے اوپرہیں۔