آخر کار سپریم کورٹ کا فیصلہ آ گیا ہے، یہ فیصلہ پانچوں ججز کا متفقہ فیصلہ ہے۔پاکستان میں روایت یہی ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ آئے وہ فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا اور طرح طرح کی قانونی موشگافیاں نکالی جاتی ہیں۔لیکن آخری حقیقت یہی ہے کہ فیصلہ سب فریقوں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، اب عمران خان کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑے گا۔بادی النظر میں یہ تحریک کامیاب بھی ہو جائے گی اور عمران خان کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ تاہم قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 5کو اہمیت نہیں دی اور سپیکر کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔جس طرح حکومت کے بڑے بڑے ذمہ داران غیر ملکی سازش کی دہائی دے رہے تھے اور ایک تحریری ثبوت دے رہے تھے کہ وزیر اعظم کے خلاف سازش غیر ملک میں تیار کی گئی تھی، تو اس کے بارے میں کم از کم تحقیقات کا حکم تو دیا جانا چاہیے تھا۔اس سے پہلے میمو گیٹ سکینڈل میں ایک ہائی لیول انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا۔جبکہ اس سکینڈل میں مدعی حکومت نہیں تھی بلکہ عام سیاستدان تھے جو تحریری ثبوت موجود تھا ،اس پر کسی کے دستخط بھی نہیں تھے اور کوئی تاریخ بھی درج نہیں تھی اس انکوائری کمیشن نے جو رپورٹ تیار کی، اسے سپریم کورٹ نے درست تسلیم کیا اور نو ججوں نے فیصلہ دیا کہ امریکی چیف آف جوائنٹ سٹاف کو لکھا جانے والا میمو اصلی ہے اور حسین حقانی کا تحریر کردہ ہے اور اس سے پاکستان کی سکیورٹی اور ایٹمی اثاثوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اس ساری کارروائی کے باوجود حسین حقانی ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوا اور آج بھی امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف عمل ہے۔ آج ہمارے پاس پاکستانی سفیر کا سرکاری مراسلہ موجود تھا اور اس میں وزیر اعظم پاکستان کو کھلی دھمکی دی گئی تھی لیکن حکومت میں ہوتے ہوئے بھی عمران خان اس خط میں درج کسی بھی شخصیت کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہوئے۔اس خط پر قانونی کارروائی کرنے کی بجائے کافی دن خاموشی اختیار کی گئی اور پھر یہ معاملہ ایک سیاسی جلسے میں سامنے لایا گیا۔اس عمل سے عوامی جوش و خروش میں تو اضافہ ہوا لیکن اس کی قانونی حیثیت ماند پڑ گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو ایک نامناسب طریقے سے کالعدم قرار دیا گیا اور وزیر اعظم نے آناً فاناً قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ سنا دیا اور چند منٹ میں اپنی سفارش صدر مملکت کو بھجوا دیں۔سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس لیا اور آخر کار ساری حکومتی کارروائی الٹے پائوں واپس کر دی گئی۔اب دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم اس کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔خدا کرے کہ وہ اپنی ہر کوشش کو قانونی دائرے میں رکھیں۔ وزیر اعظم کے مقاصد بلند ہو سکتے ہیں لیکن جو طریقہ کار عمران خان کی حکومت نے اختیار کیا وہ کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں ہے، ہر ایکشن میں وزیر اعظم تاخیر کا شکار ہوئے نہ وہ بروقت بددیانت لیڈروں کے خلاف کارروائی کر سکے اور نہ ہی اسمبلی کو بروقت توڑنے کی کارروائی کر سکے۔ غیر ملکی سازش کی خبر جب انہیں ملی تو انہیں قانونی کارروائی کرنی چاہیے تھی۔قومی سکیورٹی کمیٹی کو بھی نہایت تاخیر سے اس معاملے میں شامل کیا گیا اور نتیجتاً اس کا فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے دوران اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی بجائے اسے محدود تر کر دیا۔وہ میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی بجائے اسے اپنے خلاف کرنے کے مرتکب ہوئے۔بیورو کریسی کی اکھڑ پچھاڑ نے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کو مکمل طور پر حکومت کے خلاف کھڑا کر دیا۔اب یہ باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ سرکاری افسروں کی ہر دو چار ماہ کے بعد پوسٹنگ کے پیچھے بھی کرپشن کا ایک گینگ کارفرما تھا اور ہر پوسٹنگ اس گینگ کے لئے ذریعہ آمدن تھا۔بہت سے لوگوں نے اس گینگ کے بارے میں وزیر اعظم کو مطلع کیا لیکن وزیر اعظم نے اس پر کان دھرنے کی بجائے اطلاع دینے والوں سے اپنے تعلقات کشیدہ کر لئے۔ وزیر اعظم اپنی حکومت کا عملی طور پر خاتمہ ہو جانے کے بعد بھی عثمان بزدار کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔وزیر اعظم کے ہمدرد انہیں اکثر و بیشتر مشورہ دیتے رہے کہ عثمان بزدار کسی طرح بھی سب سے بڑے صوبے میں حکمرانی کے اہل نہیں ہیں لیکن انہیں اس کی سمجھ نہیں آئی یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔اس سلسلے میں ان کی توہم پرستی کے قصے بھی زبان زد عام ہوئے اور ان کی انصاف پسندی کی شہریت پر حرف آیا اگر وزیر اعظم اپنے دور حکومت کا بے لاگ تجزیہ کریں تو انہیں احساس ہو گا کہ ان کی حکومت کے زوال کی سب سے بڑی وجہ پنجاب میں عثمان بزدار کی تعیناتی ہے۔ اگر اوسط درجے کا کوئی سیاستدان بھی پنجاب کی مسند پر بٹھایا جاتا تو وہ ن لیگ کا زور توڑنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔وزیر اعظم کو آخر کار پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کرنا پڑا لیکن یہ فیصلہ بھی حسب معمول اتنی تاخیر سے کیا گیا کہ پانی سر سے گزر چکا تھا۔ توقع تھی کہ عمران خان کرکٹ کی طرح سیاست میں بھی قیادت کے اعلیٰ معیار قائم کریں گے لیکن وہ اپنی لیڈر شپ کے جوہر دکھانے میں بری طرح ناکام ہوئے۔لیڈر تو سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور اپنے کردار سے اپنے ماحول کو متاثر کرتا ہے لیکن عمران خان اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی بجائے خود اپنی پارٹی میں تقسیم در تقسیم کا موجب بنے ان کی حد درجہ خود پسندی نے ان کے دوستوں کو ان کا دشمن بنا دیا۔عمران خان نے اپنے برے وقت کے ساتھیوں اور محسنوں کو اپنی ضد کی نذر کر دیا۔ جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے قریبی دوست آج ان کے خلاف گروپ بنا چکے ہیں اور ن لیگ کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ اگر وہ حفظ ماتقدم کے طور پر فیصلے نہ کرتے تو آج جیل میں ہوتے۔یوں لگ رہا ہے کہ اب پاکستان میں ان لوگوں کی حکومت بنے گی جو منی لانڈرنگ کے کیس بھگت رہے ہیں باپ وزیر اعظم بنے گا اور بیٹا پنجاب کا وزیر اعلیٰ۔تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور آخر کار نواز شریف کو دوبارہ سیاست میں لانے کے لئے نئی قانون سازی کی جائے گی۔ سارے کیس ختم ہو جائیں گے اور راوی چین لکھے گا اس ساری تبدیلی کے ذمہ دار عمران خان خود ہیں۔عمران کی بے عملی اور حکمت سے عاری فیصلے ہی اس ساری صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ وقت گزرنے کے بعد عمران خان کو پتہ چلا ہو گا ان کا نیب کس قدر غیر موثر اور نالائق تھا ۔ایک سیاستدان کا کیس بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا۔ ملک تو کیا وہ اپنے ذاتی گھر کے معاملات بھی احسن طریقے سے نہ چلا سکے۔فرح خان یا فرح گجر کے کارنامے آج میڈیا کی زینت بن رہے ہیں اور اان کا مبینہ طور پر ملک سے فرار ہو جانا ان کہانیوں کو اور تقویت دے گا۔ عمران خان نے اپنے چند ٹیم ممبر چننے میں پہاڑ جیسی غلطیاں کی ہیں عمران خان تو جلد ہی احساس ہو جائے گا جب یہ سب لوگ انہیں چھوڑ کر اپنے اپنے ملک سدھاریں گے جہاں وہ پہلے مقیم تھے اللہ کرے کہ عمران خان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور لیڈر آف اپوزیشن کا کردار بطریق احسن نبھائیں۔استعفوں کا آپشن شاید انہیں ہمیشہ کے لئے سیاست سے باہر کر دے گا۔