2022ء کے آغاز میں یوکرائن اور روس کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا گیا۔ روس نے یوکرائن پر حملہ کیا اور روس کی فضائیہ نے یوکرائن کی فضائیہ کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ پہلے ہفتہ میں یوکرین کے ایٹمی پلانٹ پر قبضہ کر لیا۔ بہت سے لوگ اس جنگ کو تیسری عالمگیر جنگ کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔اگر یہ جنگ عالمگیر جنگ میں بدلتی ہے تو انسانی تاریخ کی بدترین جنگ ہوگی۔ روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ کی کئی وجوہات ہیں۔ ان میں سر فہرست یوکرائن کی نیٹو می شمولیت کی کوشش ہے۔ نیٹو ایک فوجی اتحاد ہے جو یورپی ممالک اور امریکہ نے روس کے خلاف بنایا تھا۔ نیٹو کی بنیاد 4 اپریل 1949ء کو رکھی گئی۔ اس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، کنیڈا، پرتگال، ناروے، ڈنمارک، آئس لینڈ ،بلجیم، نیدرلینڈ اور لکسمبرگ شامل تھے۔ 1952 میں سیکریٹری جنرل نیٹو کی پوسٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ ترکی اور یونان نے 1952ء میں نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ جرمنی 1955ء میں نیٹو میں شامل ہوا۔ 1961ء میں دیوار برلن تعمیر ہوئی اور جرمنی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ مشرقی جرمنی پر روس کا کنٹرول تھا اور مغربی جرمنی امریکہ کے اثر میں تھا۔ اس وقت سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ 4 لاکھ امریکی فوجی یورپ میں موجود تھے۔ 1966ء میں فرانس نے نیٹو سے علیحدگی اختیار کی اور 1982ء میں سپین نیٹو کا رکن بن گیا۔ 1991ء میں سوویت یونین کا زوال ہوا اور 1990 میں جرمنی متحد ہو گیا۔ 1991ء میں وارسا پیکٹ ختم ہو گیا۔ 1999ء میں ہنگری ، پولینڈ اور چیک ری پبلک نے نیٹو کو جوائن کر لیا۔ نیٹو کی ممبر شپ بڑھتی گئی اور 2004ء میں بلغاریہ، اسٹونیا، لٹویا، لتھوانیا ، رومانیہ ، سلواکیہ اور سلوونیا نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ اب صورتحال روس کے لئے ناقابل برداشت ہونے لگی کیونکہ کئی ممالک ایسے تھے جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے۔ 2009ء میں البانیہ اور کروشیا نے بھی نیٹو کے اتحاد میں مل گئے۔ 2017ء میں مونٹینگرو اور 2020ء میں شمالی مقدونیہ نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی۔ جب 2007ء میں سارکوزی فرانس کا صدر بنا تو 2009ء میں فرانس نے نیٹو میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی۔ اب یوکرائن کو نیٹو کا ممبر بنانے کی تیاری تھی کہ روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا۔ اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کس کے خلاف ہو رہا تھا۔ امریکہ سب یورپی ممالک کو روس کے خلاف اتحاد میں شامل کر رہا تھا۔ یہ بات روس کو کسی بھی طرح گوارہ نہ تھی۔ سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد روس وقتی طور پر بہت کمزور ہوگیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جب روس کا دفاعی بجٹ امریکہ سے تین گنا زیادہ تھا اور اسکی اکانومی کا حجم امریکہ سے ایک تہائی تھا۔ یعنی روس کے دفاعی اخراجات امریکہ سے نو گنا تھے اکانومی کے لحاظ سے۔ 1991ء سے 2000ء تک امریکہ کی اجارہ داری بے روک ٹوک تھی۔ جب 1999ء میں ولادی میر پیوٹن نے روسی اقتدار سنبھالا تو صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ روس رفتہ رفتہ معاشی طور پر طاقتور بننے لگا اور 2000ء سے اب تک روس کی فوجی اور سیاسی طاقت میں بھی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اب روس نے دنیا کی سیاست میں اپنا اثر ورسوخ دکھانا شروع کردیا ہے پہلے روس نے شام میں بشار الاسد کی حکومت کو امریکہ کے خلاف کھڑا کر دیا۔ روس نے جارجیا پر قبضہ کر لیا۔ یوکرین میں گیس کے کافی ذخائر موجود ہیں۔ یورپی ممالک ان ذخائر کو اپنے استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔ روس اس وقت دنیا میں گیس کا سب سے بڑا پروڈیوسر اور برآمد کرنے والہ ملک ہے۔ یورپ کی انڈسٹری کا بڑا حصہ روس کی گیس پرانحصار کرتا ہے۔اگر روس گیس کی سپلائی یورپ کو بند کردیتا ہے تو یورپ کی انڈسٹری بری طرح متاثر ہوگی۔ شہری زندگی سردیوں میں روس کی گیس کے رحم وکرم پر ہے۔ گیس کی قیمت دو سال میں پانچ گنا بڑھ چکی ہے روس تیل کا بھی بڑا برآمد کنندہ ہے۔ روس اب کسی کا محتاج نہیں ہے۔ دوسری طرف روس کے چین کے ساتھ اب بہت اچھے تعلقات ہیں۔ روس اور چین ملکر دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت ہیں۔ روس اب پاکستان کے بھی بہت قریب آچکا ہے۔ پاکستان کی صورت میں روس کو گرم پانیوں تک رسائی مل سکتی ہے۔ روس کی گیس پاکستان، انڈیا اور چین کو برآمد ہو سکتی ہے۔ روس میں توانائی کے بہت ذخائر ہیں اور پاکستان، چین، انڈیا کو اس وقت توانائی کی ضرورت ہے۔ اس وقت یورپ اور امریکہ ایک طرف اور روس اور ایشیا کے ممالک دوسری طرف ہو سکتے ہیں۔ یوکرائن کو امریکہ اور نیٹو اتحادیوں نے جنگ کے منہ میں دھکیل دیا ہے۔ اس وقت یوکرائن کی صورتحال بہت خراب ہے۔ یوکرائن کسی طور پر بھی روس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ امریکہ نے روس کو اس کے گھر میں جاکر گھیرنے کی حماقت کی ہے اور یہ حماقت یوکرائن کو بھگتنا پڑے گی ۔تاریخ شاہد روس کو کسی نے فتح نہیں کیا۔ نپولین، ہٹلر نے روس کے ساتھ جنگ کی حماقت کی اور اسکا نتیجہ انکو بھگتنا پڑا۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی اور نیٹو اتحادی روس کے خدشات کوختم کروائیں اور اس جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر یہ جنگ یورپ میں پھیل گئی تو اس کی تباہ کاری سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔دنیا کی معیشت پہلے ہی کورونا کی وجہ سے بری طرح زوال کا شکار ہے اس صورتحال میں ساری دنیا میں توانائی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔روسی قیادت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس جنگ کو ساری دنیا میں پھیلنے سے روکے اور دوسرے ممالک کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرے۔ امریکہ نے بھی افغانستان، عراق کی جنگ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ جب جنگ کی آگ پھیلتی ہے تو سمندر کے پانی بھی اسکو نہیں بجھاسکتے۔ دنیا امن کی جگہ ہے ۔اس کا امن قائم رہنا چاہئے۔