وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خاں روس کے دو روزہ سرکاری دورہ پر روس روانہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں یہ کسی پاکستانی وزیر اعظم کا تیسرا دورہ روس ہے۔ اس سے پہلے 1974ء میں جناب ذولفقارعلی بھٹو نے روس کا دورہ کیا تھا۔ اور اس کے بعد نواز شریف 1999ء میں روس گئے ۔ آج تک کسی روسی صدر نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ ایک بار روسی نائب صدر نے 1992ء میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور ایک بار روسی وزیر اعظم پاکستان آئے۔ پاکستان کے سابق صدر ضیاالحق روسی صدر برزنیف کی تدفین کے موقع پر روس گئے تھے۔اس کے علاوہ صدر مشرف روس کا دورہ کر چکے ہیں۔ آصف علی زرداری پہلے سویلین صدر تھے جنہوں نے روس کا دورہ کیا۔ روس اور پاکستان کے تعلقات میںشروع دن سے رکاوٹ رہی ہے۔ جب انڈیا کے وزیر اعظم نہرو نے امریکی دورہ کی دعوت قبول کی تو پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کو روس کے دورہ کی دعوت دی گئی۔ لیاقت علی خان روس کے بجائے امریکی دورہ پر چلے گئے۔ بعد میں راولپنڈی کیس کے تحت میجر جنرل اکبر اور فیض احمد فیض کو سزا سنائی گئی تو پاکستان اور روس کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ روس اور پاکستان کے تعلقات میں پہلی بار بہتری حسین شہید سہروردی کے دور میں ہوئی۔ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو پاکستان کے تعلقات سوشلسٹ بلاک کے ساتھ بہتر ہوئے۔ بھٹو کے دور میں روس نے پاکستان میں سٹیل مل کے قیام میں بہت مدد کی۔ جب ضیا الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور ان کو عدالت کے فیصلہ کے تحت موت کی سزا دلوائی تو روس اور پاکستان کے تعلقات میں ایک بار پھرکشیدگی پیدا ہوئی۔ روس اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کا ایک اہم واقعہ 1962ء میں امریکی جاسوس طیارہ کی پاکستان سے پرواز اور اس کا روس میں گرایا جانا تھا۔ پاکستان نے ایوب خاں کے دور میں پشاور ایئر پورٹ امریکیوں کو لیز پر دے رکھا تھا اور یہاں سے امریکی جہاز پرواز کرتے تھے۔ ایک امریکی جہاز روس میں مار گرایا گیا جس نے پشاور بیس سے پرواز بھری تھی۔اس واقعہ کے رد عمل میں روس نے 1965ء کی جنگ میں انڈیا کے بہت حمایت کی۔ 1971 ء کی جنگ میں بھی روس نے انڈیا کی مدد کی اور روسی ایٹمی آبدوز پاکستانی ساحل کے قریب تک دیکھی گئی۔ 1979ء میں روس نے افغانستان میں اپنی افواج بھیج دی تو پاکستان نے امریکہ کے ساتھ ملکر افغانستان کے مجاہدین کی مدد کی۔افغانستان میں روس کو تاریخی شکست ہوئی۔اس طرح پاکستان اور روس کے تعلقات میں کشیدگی قائم رہی۔طالبان کے امریکی افواج کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کرنے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد اب ایک پر امن افغانستان روس اور پاکستان کی مشترکہ خواہش ہے۔ روس کو شروع دن سے مسئلہ ہے کہ اس کی گرم پانی کے سمندر تک رسائی نہیں ہے۔ افغانستان پر روسی قبضہ کے وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ روس گرم پانی کے سمندر تک رسائی کیلئے پاکستان میں آئے گا۔ جب بھٹو کے اقتدار کے آخری دن تھے تو بھٹو نے روسیوں کو گوادر کی بندرگاہ کی پیشکش کی تھی مگر اس سے پہلے ہی امریکیوں نے بھٹو کو پکڑ لیا۔ اب ایک تبدیل شدہ دنیا ہے۔ چین کی صورت میں امریکہ کے سامنے خطے میں ایک اور طاقت موجود ہے۔ سی پیک کی شکل میں چین گوادر تک رسائی حاصل کر چکا ہے۔ روس کا پرانا خواب پورا ہو سکتا ہے اگر افغانستان میں امن ہو جائے۔ یورپی اقوام اپنا مال بیچنے کے لئے ایشیا ، افریقہ اور امریکہ کے بر اعظموں تک پہنچی۔ اب اگر افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے تو روس کی رسائی گوادر تک ہو جائے گی پاکستان کی رسائی وسطی ایشیا کی منڈی تک ہو جائے گی۔ روس توانائی کے حوالے سے بہت امیر ہے۔ روس میں تیل کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ روس کا شمار تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ روس قدرتی گیس کی پیداوار میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔ انڈیا، پاکستان، چین سمیت خطے کے سب ممالک توانائی کے حوالے سے پیچھے ہیں۔انڈیا اور چین کوئلہ سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اور پاکستان تیل سے۔ روس گیس اور تیل ان ممالک کو فراہم کر سکتا ہے۔ پاکستان روس کو گوادر تک رسائی دیکر اپنا توانائی کا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ روس خام تیل، پٹرولیم پراڈکٹ اور گیس کی علاوہ مشینری اور دھاتیں بھی برآمدکرتا ہے۔ کوئلہ بھی برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کی چار بڑی درآمدات میں خام تیل، بجلی کا سامان، مشینری اورسٹیل شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کاٹن کا قلت ہے۔ پاکستان کاٹن کی مصنوعات کے لئے کاٹن درآمد کر رہا ہے۔ روس کاٹن بھی برآمد کرتا ہے۔روس پھل مالٹا ، کینو کا امپورٹر ہے۔ پاکستان اپنا کینو روس کو برآمد کر سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی تجارت کا زیادہ حجم امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہے۔ روس یورپ اور امریکہ کی نسبت پاکستان سے بہت قریب ہے پاکستان اس سلسلہ میں فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ روس اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری امریکہ کو کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہو گئی۔ امریکی لابی پاکستان کو روس سے دور کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر سکتی ہے۔اب 23 اور 24 فروری کو وزیراعظم روس کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں بہت سی برف پگھلنے کے امکانات ہیں۔ اب پاکستان کی حقائق بھی بدل چکے ہیں۔ پاکستان پہلی بار امریکی پریشر سے نکل کر آزاد فیصلے کر رہا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اب امریکہ کی اتنی مرہون منت نہیں ہے۔ پاکستان نے کئی مواقع پر کھلے عام امریکہ کو ’’نو‘‘ کا سگنل دیا ہے۔ چین کے خلاف امریکی کانفرنس کا بائیکاٹ اور سرمائی اولمپک میں پاکستان کی شرکت اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ وزیر اعظم کا دورہ روس بڑا تایخی دورہ ہو سکتا ہے اس بار کچھ نیا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بھی کوئی بڑی تبدیلی ہو سکتی ہے۔امریکہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔اب دیکھنا ہے عمران خاں روس سے کیا لے کر آتے ہیں۔