میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِن بابرکت ساعتوں میں، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز کو فعال بنائے جانے کے سلسلے میں،اِس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی سرگرمِ عمل ہے، گزشتہ جمعہ کو اِس کا اجلاس بورڈ کے وائس چیئرمین محترم میاں محمد حنیف کی سرکردگی میں منعقد ہوا۔ اجلاس کی رسمی کارروائی کا اختتام ہوا، تو بورڈ ممبر میاں شفیع محمد، جو رحیم یار خاں سے ایم اپی اے بھی ہیں، نے ادارے کی غرض و غایت اور مقاصد واہداف کے حوالے سے دلچسپی کا اظہار کیا، ان کا انہماک اور توجہ --- روایتی پارلیمنٹیرینز والی نہیں تھی۔ مجھے ان میں سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خصوصی تمسک اور دین سے لگاؤمحسوس ہوا، اِس ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ممبران پنجاب اسمبلی سے دو شخصیات، جن کو جناب سپیکر نامزد کریں، بطور ممبر شامل ہوتے ہیں، یہ انتخاب کم و بیش ایک سال قبل اس وقت کے سپیکر اور آج کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کا ہے، جنہوں نے انسٹیٹیوٹ کی ہمیشہ "Ownership" کو اعزاز جانا اور اَب بطورِ وزیر اعلیٰ اِس ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹر زکے چیئرپرمین بھی ہیں۔ اسی طرح ادارے کے فنگشنز کو سبک رفتاری سے آگے بڑھانے کے لیے، انہوں نے میاں محمد حنیف کو بورڈ کے مسلسل اجلاس منعقد کرتے ہوئے، اس کے رولز، ریگولیشن، ایڈ منسٹریشن، فنانس، مینجمنٹ، ریسرچ مینجمنٹ اور سکیم آف سٹڈیز قومی اور بین الاقوامی دانشگاہوں سے الحاق،اِس ادارے کے لیے چارٹر اور ڈگری ایوارڈنگ حیثیت کا حصول جیسے امور تفویض کیے ہیں، اور بالخصوص اِس کے اکیڈیمیا اور لیڈرشپ کے لیے ایسا انتخاب ،جو کوئی ہیڈ ماسٹرٹائپ نہ ہو، بلکہ اپنے مقاصد و اہداف سے کماحقہ عہدہ براء ہونے کی استعداد و صلاحیت رکھتا ہو۔ انسٹیٹیوٹ کے ایکٹ میں اِس ادارے کو یہ ذمہ داری تفویض ہوئی ہے کہ یہ --- قرآن و سْنہ پر تحقیق کا اہتمام کرے گا،تاکہ موجودہ دور کے معاشرے کو درپیش مسائل کا قابلِ عمل حل میسر آسکے، اس سلسلے میں اِس مقام پر قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں قومی اور بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد ہوگا۔ ریسرچ رپورٹس، ریسرچ جرنلز اور اسلام کی تعلیم کے فروغ اور پھیلاؤ کے لیے مطبوعات کا اہتمام اور اِس کی عمار ت میں قرآن میوزیم اور سٹیٹ آف دی آرٹ سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامیات پر جدید لائبریری قائم ہو، یقینا یہ ادارہ اپنے دائرہ فکر و عمل کے اعتبار سے اپنے اندر ازحد وسعت کا حامل ہے، اور اس خطّے میں ایسے اداروں کی ضرورت گزشتہ کئی قرنوں اور عشروں سے محسوس ہوتی رہی ھے،انیسویں اور بیسویں صدی میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندو ستان پر غلبہ حاصل کرلیا، تو عیسائی مشنریز اور پادریوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔ یہ عیسائی پادری کچھ انگریز تھے، جو اْردو سیکھ کر آئے تھے اور کچھ مقامی تھے، اِس میں بعض ہندو بھی شامل ہوگئے، اِن کا اصل ہدف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی اور اسلامی عقائد میں تنقیص تھا۔ یہ گستاخانہ روش اَبھی پروان چڑھ رہی تھی کہ انہی دنوں ایک مشہور انگریز اور ینٹلسٹ ولیم میور نے: "The life of Muhammad from Original Sources" کے نام سے چار جلدوں میں ایک کتاب لکھی، جس کا چرچا اِس کے چھپنے سے پہلے ہی ہوگیا۔ ظاہر ہے ایک تو انگریز حکومت کا جاہ و جلال اور طمطراق، دوسر امصنف، جو عربی اور فارسی کے ساتھ اسلامی علوم و فنون کا بھی ماہر اور پھر یوپی جیسے وسیع و عریض صوبے کا گورنر، جس کا رقبہ اور آبادی ہمارے پاکستان سے بھی زیادہ ۔۔۔ ولیم میور بنیاد ی طور پر سکاٹ لینڈ کا باشندہ ۔۔۔گلاسکو میں 1819ء میں پیدا ہوا۔ ہندو ستان کی سول سروس کا اہم عہدیدار اور معتبر رکن، جو 1837ء میں ہندوستان آیا اور چھ سال تک حکومت ِ ہند کا فارن سیکرٹری رہا، 1867ء میں اس کو سَر کا خطاب ملا اور پھر یوپی کا لیفٹیننٹ گورنرمقرر ہوا۔ اسی کے نام پر الہ آباد میں میور کالج قائم ہوا۔ وہ 1885ء سے لے کر 1903ء تک اڈنبرا یونیورسٹی کا پر نسپل رہا۔ اسی کی نگرانی میں ""Indian Penal Code" کا انگریزی سے اردو میں تعزیرات ہند کے نام سے ترجمہ ہوا، لیکن اصل شہرت اْس کی مذکورہ کتاب تھی۔ جس میں بنیادی عربی مصادر سے استفادہ کیا گیا تھا۔ یہ کتاب انتہائی متعصبانہ انداز میں ترتیب دی گئی، جس نے مسلمانوں کے دلوں کو آزْردہ کردیا، سر سیّد احمد خان نے کہا کہ جوں جوں کتاب دیکھتا، دل کباب ہوتا جاتا۔ کتاب کا بنیادی مقصد تحقیقی و تعمیری نہیں، بلکہ اسلام کے خلاف بغض و عناد کا اظہار تھا، جس میں قرآن اور صاحبِ قرآن کو موجودہ تہذیب اور معاشرت کے دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔ چنانچہ سب سے پہلے سر سیّد احمد خان نے اِس کتاب کا عالمانہ جواب لکھنے کا ارادہ کیا۔ اور یوں برصغیر میں سیرت نگاری کے ایک نئے دبستان کا آغاز ہوا، جس میں مناظرانہ کی بجائے محققانہ اسلوب کو اختیار کیا گیا۔ استد لالی اور جوابی دلائل کے لیے مطلوبہ کتابیں ہندوستان میں ناپید تھیں۔ بڑے بڑے علمی ذخیر ے اور وقیع لائبریریاں انگریزوں کے ہاتھوں لٹ کر، انگلستان کی لائبریریوں کی زینت بن چکی تھیں۔ چنانچہ1879ء میں سر سیّد انگلستان گئے۔ انڈیا آفس لائبریری دیکھی تو کہتے ہیں کہ میرے ہوش ہی اْڑ گئے، کتب خانہ کیا ہے، کتابوں کا ایک شہر ہے، جس کتاب کا نام لو، وہاں موجود۔۔۔مجھے وہاں بیٹھنے، پڑھنے، کتابیں لینے اور نقل کر نے کی بھی اجازت مل گئی۔ یوں انگلستان میں بیٹھ کر، سر سیّد نے سر ولیم میور کی کتاب کا جواب لکھنا شروع کیا۔ مالی وسائل بھی محدود تھے، لیکن جذبہ یہ تھا کہ تَن،مَن دَھن--- نقدِ جاں بھی صَرف کرنے کی نوبت آئی تو اِعراض نہ کروں گا۔ ایک جگہ لکھا کہ میں اِس کام میں بے گھر اور بے سہارا ہونے کو بھی تیار ہوں، لیکن جب قیامت میں کہا جائے گا کہ لاؤ اور حاضر کرو اِس فقیر اور مسکین سیّد احمد کو، جو میرے نام پر گھر بار لٹا بیٹھا،تو یہی اعزاز کافی ہوگا۔ مارا آں تمغہ شاہیِ بس است یہ سیرتِ طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی کتاب ہے، جو ایک مسلمان محقق اور دانشور نے، مخالف ملک میں جا کر، غیر مسلم ماحول میں، اِنہیں کے اسلوب اور استدلال سے کام لے کر، ایک غیرمسلم مصنف کی تردید میں لکھی اور سیرت کے بارے میں اپنا نقطہ نظر، اپنی رائے اور تحقیق کے حوالے سے پیش کیا۔ ابھی ایک ہی جلد کا جواب لکھ سکے تھے کہ وسائل کی عدم دستیابی کے سبب واپس ہندوستان آگئے۔ اگرچہ یہ ایک صخیم کتاب تھی جو کہ کئی سو صفحات پر مشتمل تھی، تاہم نامکمل،،،،یہ کتاب 1870، سرسید کی لندن موجودگی کے دوران شائع ہوئی ،جبکہ اْردو میں 1872ء میں لندن سے واپسی پر طبع ہوئی۔ سر سیّد نے لندن میں ایک اردو جاننے والے انگریز کو معاونت کے لیے آمادہ کیا، جس کے معاوضے کا بھی، انہوں نے اہتمام کیا، جو دقیق انگریزی عبارات کی تسہیل اور ترجمے کا اہتمام کرتا اور مزید یہ کہ انگریزی ٹرانسلیشن کے لیے بھی ایک ماہر انگریز کی خدمات حاصل کیں۔