مغربی ملکوں اور بعض غیر اسلامی معاشروں کی نقالی میں’’یوم محبت‘‘ کا نام دے کر پاکستان میں گزشتہ کئی عشروں سے ہر سال 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے جس کا پاکستانی تہذیب و ثقافت اور رسوم روایات سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں لیکن سوسائٹی کا مغرب زدہ ایک قلیل طبقہ پاکستان کی نوجوان نسل خصوصاََ طلبا و طالبات کو ویلنٹائن ڈے کی زلف گرہ گیر کا اسیر بنا کر گمراہ کر رہا ہے جبکہ پاکستانی آبادی کا ایک بڑا حصہ ویلنٹائن ڈے کو قبیح فعل مانتا ہے ۔ بلا شبہ اپنے عزیزو اقارب، بیوی، بچوں، والدین کو گلاب کے پھول پیش کرنے میں کوئی قباحت ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی دن مخصوص ہے۔ ہماری دینی اقدار میں بھی غیر مرد و عورت کا ایک دوسرے سے اظہار محبت منع ہے۔ مسیحی نقطہ نظر بھی اسے جنسی بے راہروی پر مبنی قرار دیتاہے۔کئی اسلامی ممالک میں بھی اس دن کو منانے اور اس حوالے سے اشیا کی خرید و فروخت پرپابندی ہے حتیٰ کہ بھارت میں ہندو تنظیم بجرنگ دل بھی ویلنٹائن ڈے کی مخالفت کر چکی ہے ۔2017 میں اسلام آباد ہائی کورٹ عوامی مقامات پر ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی لگا چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستانی معاشرے کی تہذیب و ثقافت ، اقدار اور رسوم و روایات کی حفاطت کی جائے اور ان کو رواج دیاجائے اور مغرب سے درآمدہ ویلنٹائن ڈے منانے کے نام پر کی جانے والی خرافات سے اجتناب کیا جائے جس کی وجہ سے خود مغربی معاشرہ بے راہروی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔