چھٹے طاقتور مغل فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے بیٹے کو خط لکھا اور خط میں ایک ضلعی کلکٹر اور کوتوالِ شہر پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اْن (بادشاہ) کی معلومات کے مطابق متعلقہ ضلع سے کم از کم سولہ سو (کرنسی/روپے) ماہانہ آمدنی سلطنت کے خزانہ میں جمع ہونا چاہئے تھے مگر ضلعی کلکٹر نے محض ایک سو جمع کرایا ہے۔ تین سو سال قبل لکھے گئے خط کے متن کے مطابق مغل فرانروا اپنے بیٹے کو ہدایت دیتے ہوئے مزید لکھتا ہے کہ اگر سرکاری مشینری کل جمع کئے گئے راہداری محصول کا پانچ فیصد بھی اپنے اخراجات پر صرف کرے اور پینتالیس فیصد رقم متعلقہ ضلع کی عوام کی فلاح و بہبود، راہداریوں (سڑکوں) کی تعمیرو مرمت اور دیگر امور پر خرچ کرے تب بھی کل محصول کا پچاس فیصد بادشاہ کے خزانے میں جمع ہونا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں ہورہا۔(زمانہ ِ قدیم میں ہر چیز بادشاہ کی رعایا مانی جاتی تھی مگر بعد ازاں کچھ بہتری آئی تو بادشاہ نے اپنے لئے پچاس فیصد آمدن مقرر کی)۔ بادشاہ لکھتا ہے کہ اِس کا مطلب ہے کہ معاملات میں کہیں گڑ بڑ ہے۔ چھٹے مغل بادشاہ کے اِ س خط کو مدِ نظر رکھا جائے اور آج کے پاکستان کے معاملات کو اِس کسوٹی پر پرکھا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آج بھی ہمارا وہی پرانا مسئلہ ہے۔ آج بھی ایک ضلع سے جمع کیا گیا محصول سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہورہا بلکہ جمع کرنے والی ریاستی مشینری ضلعی سطح پرکافی رقم آپس میں بانٹ لیتی ہے اور جتنا ٹیکس جمع ہورہا ہے وہ شاہ اپنی شاہ خرچیوں میں اڑایا جا رہا ہے۔ آج پاکستان کے جس ضلع سے محصول اِکٹھا کیا جارہا ہے اْس ضلع کے عوام کو اِس کے متعلق علم ہی نہیں کہ اْن سے ماہانہ کتنا ٹیکس وصول کیا گیا ہے؟ اْس ضلع سے گزرنے والی سڑکوں پہ بنے ٹال پلازے کتنا ٹیکس جمع کررہے ہیں؟ متعلقہ ضلع میں موجود کارخانوں، زمینوں، فصلوں، کالجوں، جامعات اور دیگر اداروں سے کتنا پیسہ جمع ہوکر سرکاری خزانے میں جمع ہورہا ہے؟ کیا یہ مشکل ہے کہ ضلعی کلکٹر ایک ویب سائٹ کے ذریعے متعلقہ عوام کو ماہانہ کی بنیاد پر آگاہ کرے۔ یا پھر ایک سرکاری ایپ کے ذریعے متعلقہ شہریوں کو خود اْن کے موبائل پر ماہانہ کی بنیاد پر یہ معلومات فراہم کی جائیں کہ اْس ماہ متعلقہ ضلع سے کتنا ٹیکس /پیسہ جمع کیا گیا ہے؟ ماہانہ کی بنیاد پر متعلقہ ضلع میں بچھائی گئی سڑکوں، سرکاری عمارات بشمول سکولوں، کالجوں، جامعات سمیت دیگر اداروں کی بحالی و مرمت پر ایک مختص رقم خرچ کی جائے۔ ساتھ ہی نئی سڑکوں کی تعمیر اور موجودہ کی خستہ حالی کے پیش ِ نظر اْن کی مرمت کی جائے۔ بچی گئی رقم سے مزید نئے اقدامات کئے جائیں ۔ضلعی کلکٹر سے لے کر کوتوالِ شہر سمیت سبھی متعلقہ اداروں کے پاس یہ معلومات مہیا ہوں اور ہر شہری اپنے ٹیکس کے صحیح اور جائز استعمال سے بخوبی واقف ہو۔ یہ کس قدر مشکل ہے کہ اِس پر عمل نہیں ہوپارہا؟ مسئلہ شاید یہ ہے کہ تمام اضلاع سے جمع شدہ رقم صرف سرکاری خزانے میں ہی جمع ہورہی ہے جہاں سے سارا پیسہ شاہ کی ذاتی، شاہ کے وفاداروں، نوکروں چاکروں اور دیگر چاپلوسوں کے اللے تللوں پر خرچ ہورہا ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک پر اربوں ڈالرز کا قرضہ چڑھ جائے۔ قرض پاکستانی عوام کے نام پر لیا جاتا ہے آج تک اْس عوام پر ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا بلکہ عوام کو وہ تمام بنیادی اشیاء جس کے بدلے میں ریاست عوام سے ٹیکس وصول کرتی ہے وہ ساری نجی اداروں سے خریدنا پڑتی ہیں۔ مثلاََ جب ایک شہری اپنے گھر کے گرد چار دیواری کے اوپر حفاظت کی غرض سے لوہے کی سلاخیں لگواتا ہے وہ دراصل ریاست کے حفاظتی نظام پر عدم ِ اعتماد کررہا ہوتا ہے۔ جب وہ لْٹ جاتا ہے تو تھانے کی بجائے وہ چپ رہنا زیادہ پسند کرتا ہے۔اْس کی یہ خاموشی دراصل تھانے پہ عدم ِ اعتماد ہوتا ہے۔ اِسی طرح جب وہ عدالت کی طر ف رْخ کرتا ہے تو اْسے اِس قدر پیشیاں پڑتی ہیں کہ اْس کی ساری جمع پونجی عدالت اور کچہری کے چکر لگا لگا کرختم ہوجاتی ہے۔وہ بیمار ہوتا ہے تو سرکاری ہسپتال رْخ کرنے کی بجائے وہ گھر کی چیزیں بیچ کر نجی ہسپتال سے علاج کروانا زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ اْسے سرکاری ہسپتال سے بنا علاج کے ٹرخا دیا جاتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں اور کالجوں میں بھیجنے کی بجائے نجی سکولوں اور کالجوں میں بھیجتا ہے کیونکہ وہ جان گیا ہے کہ سرکاری تدریسی اداروں میں استاد و عملہ صرف سرکاری ملازمت کرنے آتے ہیں اس لئے تعلیم نجی اداروں میں دی جاتی ہے۔ وہ یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ جب وہ اپنے بچوں کے لئے سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا ہے اْسے پھر منہ کی کھانا پڑتی ہے اور تمام بڑی ملازمتیں شاہ اپنے وفاداروں اور نمک خواروں میں بانٹ دیتا ہے اور اْس کا بچہ پھر در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔ دوسری جانب وہ دیکھتا ہے کہ سرکاری افسران کو گاڑیاں،پیٹرول، رہائش گاہیں، اْن کے یوٹیلٹی بلز، نوکروں کی لمبی قطاروں پر اْٹھنے والے اخراجات صرف اِس غریب عوام کا خون چوس کر پورے کئے جارہے ہیں۔صورتحال یہ ہوکر رہ گئی ہے کہ ساری ریاستی مشینری ایک عام، محتاج، کمزور، لاغر اور لاچار پاکستانی کا خون چوس کر چلائی جارہی ہے اور جو یہ ریاستی مشینری چلا رہے ہیں اْن کی بیرونِ ممالک جائیدادوں میں ہر سال کئی گنااضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اْن کی اولادوں نے بیرونِ ملک کئی طرح کے کاروبار شروع کررکھے ہیں۔ اْن کی اولادیں سپین میں بھارتی اداکاراؤں کا رقص دیکھ رہی ہیں۔ کیا واقعی ہمارے وطن ِ عزیز میں اقتدار کی راہداریوں میں بیٹھے شاہ اور شاہ کے وفادار خوف ِ خدا سے عاری ہوچکے ہیں؟ کیا واقعی وہ بھول چکے ہیں کہ اْنہیں مرنا ہے اور مرنے کے بعد رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے اور تمام اعمال کا پورا پورا حساب دینا ہے۔