گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان میں صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے۔ جو ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ہے ۔کافی لوگ اس کی حمایت میں ہیں اور کچھ لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں سب سے پہلے ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ صدارتی نظام کیا ہے اور یہ کن ممالک میں رائج ہے اور پاکستان میں صدارتی نظام کا ماضی کیا ہے اور اس کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ اس وقت دنیا میں دو طرح کی جمہوری حکومتیں قائم ہیں۔ ایک پارلیمانی نظام اور دوسرا صدارتی نظام۔ پارلیمانی نظام جو اس وقت پاکستان میں رائج ہے اس میں حکومت کا سر براہ وزیر اعظم ہوتا ہے اور ریاست کا حاکم صدر ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کو الیکشن جیتنے والی جماعت یا الیکشن اتحاد کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے اکثریت کا ووٹ حاصل کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے الیکشن میں دو یا دو سے زائد امیدوار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت کافی سیاسی جماعتیں ہیں ان میں سے جو جماعت زیادہ سیٹین لیتی ہے یا جس کے اتحادی زیادہ ہوتے ہیں وہ حکومت قائم کرتی ہے۔ صدر کا عہدہ نمائشی ہے۔ سب اختیارات وزیر اعظم کے پاس ہیں۔ اس وقت پارلیمانی طرز حکومت برطانیہ، انڈیا ،اسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کنیڈا کامیبای سے رائج ہے۔ جہاں پر حکومت کا سربراہ وزیر اعظم اور سٹیٹ کا سربراہ یا صدر ہے جیسے انڈیا ہے۔ برطانیہ، اسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، کنیڈا میں سٹیٹ کی حاکم ملکہ برطانیہ ہے۔ صدارتی طرز نظام میں صدر کا انتخاب براہ راست الیکشن سے ہوتا ہے جس طرح امریکہ، روس، فرانس، ترکی اور برازیل میں ہے۔یہاں پر ایک سے زیادہ جماعتیں الیکشن میں حصہ لیتی ہیں۔ کچھ ممالک میں ایک پارٹی سسٹم ہے جیسے چین اور کیوبا۔وہاں بھی صدارتی نظام ہے صدارتی نظام میں حکومت اور ریاست دونوں کا سربراہ صدر ہوتا ہے۔ پاکستان میں 1956ء تک ریاست کا سربراہ گورنر جنرل تھا جو آئینی طور پر ملکہ کا نمائندہ تھا۔ حکومتی سربراہ وزیر اعظم تھا۔پاکستان کا سکندر مرزا آخری گورنر جنرل اور پہلا صدر تھا ۔ 1956ء کا آئین پارلیمانی تھا۔ ایوب کا آئین 1962ء والا صدارتی تھا۔ 1973ء کا آئین پارلیمانی تھا۔ پاکستان میں جو چار مشہور صدر گزرے ہیں ان میں صدر ایوب، صدر ضیا الحق، یحی خاں اور مشرف تھے یہ سب اصل میں فوجی آمر تھے جو عوام نے منتخب نہیں کئے تھے۔ ایوب خاں بنیادی جمہوریت کے نمائندوں کے الیکشن میں منتخب ہوئے تھے۔ اس الیکشن میں فاطمہ جناح اپوزیشن کی جماعتوں کی متفقہ امیدوار تھی ان کو دھاندلی کی بنا پر ہرایا گیا تھا۔ جنرل ضیا نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے صدر بنے تھے۔ جنرل مشرف پی سی او کے تخت صدر بنے تھے۔ پاکستانی عوام کی ان صدروں اور ان کے صدارتی نظام سے بہت تلخ یادیں وابستہ ہیں۔ ایک صدر نے تین دریا انڈیا کو بیچ دیئے۔ دوسرے صدر نے مشرقی پاکستان کا تحفہ دیا، تیسرے صدر نے کلاشنکوف، ہیروئن، لسانی فسادات اور مذہبی منافقرت کا تحفہ دیا۔ چوتھے صدر نے پاکستان اور افغانستان ایک ہی کال پر امریکہ کی جھولی میں ڈال دیئے۔اب جب بھی صدارتی نظام کی بات چلتی ہے عوام ان ڈکٹیٹر کی بابت سوچتے ہیں۔ صدارتی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ صدر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے کوئی امیر کارٹل چند سو بندوں کو خرید کر جمہوریت کو ہائی جیک نہیں کر سکتا۔ صدارتی نظام میں صدر کے پاس بہت اختیارات ہوتے ہیں اور وہ عوام کے بارے میں اچھے یا برے فیصلے کر سکتا ہے۔ اس کو چند اتحادی جماعتیں یا اس کی جماعت کے چند ارکان ملکر بلیک میل نہیں کر سکتے۔ اگر ہم دیکھیں تو زیادہ تر ان ملکوں میں سیاسی استحکام ہے جہاں پر صدارتی نظام رائج ہے۔ یورپ میں بھی اٹلی جیسے ملک میں ایک ایک سال میں کئی حکومتیں تبدیل ہو جاتی ہیں۔برطانیہ میں جمہوری روایت بہت پرانی ہے وہاں پارلیمانی نظام چل رہا ہے ہمارے لوگ ابھی تک اس پارلیمانی نظام کے عادی نہیں ہو سکے یہی وجہ ہے کہ 1988ء سے 1998 ء تک چار حکومتوں کی چھٹی ہوئی ہے۔ 2002ء سے لیکر اب تک کوئی وزیر اعظم اپنے پورے پانچ سال مکمل نہیں کر سکا۔ 2002ء سے اب تک ساتوں وزیر اعظم آیا ہے اور جس کے جانے کی روز افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ یہ پارلیمانی نظام پاکستان کے موجودہ مسائل کا حل نہیں ہے اس میں مقتدر حلقوں کو اپنی من مانی کرنے کا پورا موقع ملتا ہے۔ وزیروں اور مشیروں کی فوج بھرتی کرنا پڑتی ہے۔ملک کے بجٹ پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ ہارس ٹریدنگ اور مک مکا کی سیاست ہمارا کلچر پروان چڑھتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کچھ بڑے فیصلے کئے جائیں۔ صدر کو اپنی ٹیم منتخب کرنے میں آزادی ہوتی ہے وہ ممبر قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران کا محتاج نہیں ہوتا۔اس کو پورا اختیار ہے کہ وہ پروفیشنل کو اپنی ٹیم کا حصہ بنائے ۔ یہ چاہے نجی شعبے سے ہوں یا پروفیسر حضرات ہوں یا ریٹائر سول بیورو کریٹ ہوں۔ اب روز روز کی چخ چخ ختم ہونی چاہئے۔ ملک کو اگر ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو ہمیں اب مثبت قانون سازی کرنی پڑے گی ورنہ جو حالات ملک کے ہیں آپ کو پتہ ہے ملک کے ایک باخبر صحافی کے مطابق لاہور شہر میں سو سے زائد شوٹر ہیں جو قبضہ مافیا، منشیات فروش کے لئے کام کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک ایم این اے پر ہونے والہ حملہ کسی انڈین فلم کے سکرپٹ کا حصہ لگتا ہے۔ جہاں پر گینگ وار جاری ہے اور جوا مافیہ اور قبضہ مافیہ کے لوگ فیصلہ کر رہے ہیں اس بار کا الیکشن کس کو جتوانا ہے۔ صدارتی نظام اس وقت ملک کی ضرورت ہے صدر چاہے عمراں خان ہو، یا نواز شریف یا آصف زرداری یا مولانا فضل الرحماں اس کے پاس اختیارات پورے ہوں اور وہ قوم کو جوابدہ ہو اور یہ کہہ کر نہ نکل سکے کہ ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ ان کاہاتھ اب کھولنے چاہئے اور بعد میں ان کو رسی سے باندھنا بھی چاہئے اگر یہ ڈیلیور نہ کر سکیں۔