پاکستان جس معاشی دلدل میں اتر چکا ہے ، نجات کی ایک ہی صورت ہے اور وہ آئی ایم ایف نہیں ، زراعت ہے۔آئی ایم ایف کے دستر خوان پر اوندھی لیٹی پاکستانی اشرافیہ کو یہ بات اچھی لگے یا بری لگے لیکن یہی حقیقت ہے ۔ ہر ملک کا ایک فطری پوٹینشل ہوتا ہے۔ کسی کے پاس تیل ہے ، کسی کے پاس گیس ہے ، کوئی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے ہے ۔ پاکستان کافطری پوٹینشل زراعت ہے ۔ لیکن ہمارا احساس کمتری اسے پوٹینشل ماننے کو ہی تیار نہیں۔ نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکل چکا۔اب دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی قوت کا وزیر اعظم بیرون ملک جا کر التجا کرتا ہے کہ کچھ پیسے ہمیں دے دیجیے ، اور یقین کیجیے ہم کرپشن نہیں کریں گے۔کیا دیکھنے کو اب مزید کچھ باقی رہ گیا ہے یا اب بھی ہم کچھ غوروفکر کر سکتے ہیں؟ جب سے ہمارا عشروں کا احساس کمتری ڈیجیٹلائز ہوا ہے ہمیں زراعت کے نام سے چڑ سی ہو گئی ہے۔ ہمیں لگتا ہے زراعت کا نام لینے سے ہم نام نہاد ترقی میں رکاوٹ کھڑی ہو جائے گی اور ہم ’ جدت‘ سے محروم ہو جائیں گے۔چنانچہ ماہرین ہمیں بتاتے ہیںکہ آج کے دور میں زراعت سے معیشت نہیںکھڑی ہو سکتی ،ہمیں انڈسٹریلائز ہونا ہو گا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ انڈسٹریلائز ہونا چاہیے لیکن کیا زراعت نے آپ کو انڈسٹریلائز ہونے سے روک رکھا ہے؟ کیا زراعت کے ہوتے ہوئے انڈسٹریلائز نہیں ہوا جا سکتا؟ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے جدید تعلیمی اداروں کے سائنسدان اپنے زوال کا سبب بیان کرتے ہوئے مولوی پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ان سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ عالی جاہ آپ کو سائنس کے میدان میں مہارت دکھانے کے لیے ماحول بھی میسر ہے ، صلاحیت بھی ، تنخواہ بھی اور وسائل بھی تو کیا آپ کو مولوی نے روک رکھا ہے کہ آپ متعلقہ شعبے میں کچھ کر دکھائیں؟ دیہی تہذیب اور اس کے ہر رنگ کو ہمارے احساس کمتری نے نفرت سے دیکھا۔ ہم پینٹ کوٹ پہن کر اپنے تئیں مہذب ہو گئے اور ہم نے ہوٹلوں کے دربانوں کو پگڑیاں پہنا دیں۔ یہ درست کہ نہ کوئی پیشہ حقیر ہوتا ہے نہ کوئی لباس لیکن اس سوال کا کیا جواب ہے کہ کہ پھر ہوٹلوں کے دربانوں کو پگڑیاں ہی کیوں پہنائی جاتی ہیں ، ٹو پیس سوٹ کیوں نہیں پہنائے جاتے؟ احساس کمتری ختم ہو گا تو زراعت کو ’ اون ‘ کیا جا سکے گا۔ احساس کمتری اتنا شدید ہے کہ اراکین پارلیمان کی ڈائرکٹری دیکھیں تو پیشے کے شعبے میں چند ہی ہوں گے جنہوں نے زراعت لکھا ہو گا ۔ دیہی پس منظر کے خاص زراعت سے وابستہ جاگیردار قسم کے حضرات بھی دل چسپی کے میدان میں ’ سپیس سائنس‘ لکھ دیتے ہیں تا کہ سند رہے کہ وہ ماڈرن ہیں، پینڈو نہیں۔جس ملک میں ’ پینڈو‘ کا لفظ حقارت سے استعمال کیا جاتا ہو اس ملک میں زراعت کی اہمیت سمجھنا اور سمجھانا اتنا آسان ہوتا تو کٹوں مرغیوں بکریوں انڈوں کی بات کرنے پر عمران خان کا مذاق نہ اڑایا جاتا ۔ ڈیجیٹل جدت پسندوں کو کچھ خبر ہی نہیں کہ زراعت سے وابستہ معیشت کی نوعیت کیا ہے ا ور اس کاحجم کیا ہے؟ زراعت کی نفی میں انڈسٹری کی بات کرنے والون سے پوچھا جانا چاہیے کہ تم نے اب تک کتنی انڈسٹریلائزیشن کر لی ہے اور مزید کرنی ہے تو کیا تمہیں زراعت نے روک رکھا ہے؟ یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ ’ ایگرو انڈسٹری‘ کے امکانات بھی معمولی نہیں ہے مگر ادھر کوئی توجہ نہیں کرتا۔ ٹریکٹر وغیرہ ہر کسان کی ضرورت ہے لیکن ٹریکٹر باہر سے منگوایا جاتا ہے۔زراعت آج بھی قدیم انداز سے ہو رہی ہے انڈسٹریلائزشن کے داروغوں نے زرعی آلات میں کتنی انڈسٹریلائزیشن کی ہے؟ کتنے جدید زرعی آلات مقامی سطح پر تیار ہو کر ملک میں موجود ہیں؟اور کچھ نہیں ہو پا رہا تو کم ازکم اتنا تو کیا ہوتا کہ کسان کو جدید زرعی آلات مقامی سطح پر سستے داموں بنا کر دے دیے جاتے۔ حالت یہ ہے کہ 2021 کے صرف گیارہ مہینوں میں ساڑھے سات ارب ڈالر ہم نے ’ فوڈ ایکسپورٹ‘ میں جھونک دیے۔ کتنے دکھ اور شرم اور افسوس کی بات ہے کہ ایک زرعی ملک کو صرف ایک سال کے دوران 8ارب روپے کے قریب رقم کی گندم اور چینی وغیرہ بیرون ملک سے خریدنی پڑ جائے۔ یہی ملک پھر ایک دو ارب ڈالر کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر ہو اور اس کا وزیر اعظم اپنی قوم کو بتائے کہ آئی ایم ایف ہمارے ساتھ بڑی سختی سے پیش آ رہا ہے اور صورت حال بڑی نازک ہے۔ آدمی پڑھتا ہے اور حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ جتنی رقم ہم نے تین سالوں میں سعودیہ اور چین سے لی اس سے دگنی رقم کی ہم نے ڈیڑھ سال میں گندم اور چینی خرید لی۔یہ اس ملک کی داستان ہے جسے اللہ نے 21ملین ہیکٹر قابل کاشت اراضی عطا کر رکھی ہے۔اسرائیل کی صرف دو فیصد زمین قابل کاشت ہے اور وہ اپنی فوڈ باسکٹ میں خود کفالت کو چھو نے والا ہے اور چند ممالک کو زرعی اجناس بیچ رہا ہے اور ہمارے پاس چالیس فی صد زمین قابل کاشت ہے اور ہم تین سالوں میں جتنا قرض لیتے ہیں ، ایک سال میں اس سے زیادہ کی گندم اور چینی خرید لیتے ہیں۔ احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ پنجاب کے سکولوں میں پنجابی زبان بولنا منع ہے۔کہیں باقاعدہ ممنوع ہے کہیں عملا ممنوع ہے۔پینڈو کا لفظ تحقیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔عمران خان نے ایک دو بار کٹے مرغیوں اور انڈوں کی بات کر دی تو ان کا مذاق اڑایا گیا کہ یہ اس جدید زمانے میں کیا بات کر رہا ہے۔ڈیجیٹل جہلاء اس دور میں بھی لاعلم ہیں کہ ایگرو اکانومی کیا ہوتی ہے، اس میں امکانات کا کیسا جہاں آباد ہوتا ہے اور دنیا اس سے کیسے فیض یاب ہو رہی ہے۔ کسان کا وہ حشر کر دیا گیا ہے کہ وہ زمینیں بیچ رہا ہے۔ ان زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ سارا ملک اور ساری افسر شاہی ہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے میں لگا ہوا ہے۔کسی بھی سطح پر کسی کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہے یہی روش رہی تو کل کو کھائیں گے کہاں سے۔ کچھ آوازیں اٹھتی ہیں مگر وہ صرف فیشن کے لیے اٹھتی ہیں۔ان میں کسان کے مسائل کی بات نہیںہوتی۔ یہ کسان کو یکطرفہ بھاشن دے رہے ہوتے ہیں کہ زمینیں نہ بیچو بس بھوک سے مر جائو۔ زراعت کسی کی ترجیح ہی نہیں۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو بتا سکے کہ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان کی پارلیمان میں کتنے منٹ زراعت اور اس سے جڑے مسائل اور امکانات پر بات ہوئی؟ یہی حال ابلاغ کی دنیا کا ہے ۔دنیا کے ہر موضوع پر پر سینیئر اور جونیئر تجزیہ کار اس قوم کی رہنمائی کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں لیکن ذرا یاد تو کیجیے مین سٹریم میڈیا میں زراعت کو کتنی بار پوری معنویت کے ساتھ موضوع بحث بنایا گیا۔ زراعت پر توجہ دیجیے، یہ آپ کا فطری پوٹینشل ہے ۔ ( اور یہ آپ کو کسی بھی قسم کی انڈسٹریلائزیشن سے نہیں روک رہا)۔