پاکستان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے توقع طاہر کی ہے کہ عبوری افغان حکومت دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ان کا یہ بیان طالبان کے ایک سینئر رکن کی جانب سے پاکستان اور ٹی ٹی پی پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے پر زور دینے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔ افغانستان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں کیونکہ پاکستان میں موجودتشدد افغانستان تک پھیل رہا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں افغان طالبان کی درخواست پر تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ امن عمل بحال کرنے کی کوشش کی۔ اس عمل میںابتدائی طور پر پاکستان کی طرف سے ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو آزاد کرنے کے بدلے میں جنگ بندی کا اہتمام کیا۔ تاہم امن مذاکرات اس وقت ختم ہو گئے جب پاکستان نے محسوس کیا کہ ٹی ٹی پی مسلح کارروائیوں کے لئے مہلت کے طور پر جنگ بندی کو استعمال کر رہی ہے۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اس صورتحال پر مذاکرات کی جگہ آپریشن کا فیصلہ کیا ۔آرمی کمانڈ کی تبدیلی کے بعد سے پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند کر رکھے ہیں۔نئی فوجی قیادت کا فیصلہ اس لحاظ سے درست ثابت ہو رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانی مفادات پر حملے کرنے پر بضد ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان اب بھی مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔18 مارچ 2024کو پاکستان نے طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر براہ راست کارروائی کی ۔پاکستان کی سرحدوں پر افغان اہلکاروں کی اشتعال انگیزی اور افغان شہریوں کی ہنگامہ آرائی کے واقعات ایک طرف ،افغانستان سے دہشت گرد گروپ پاکستان میں مسلح کارروائیاں کر رہے ہیں۔پاکستان نے متعدد بار افغان طالبان کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا لیکن مایوسی کے بعد اسے افغانستان کے اندر حملے کرنا پڑے۔مسلم برادر اور ہمسائیہ ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔افغانستان-پاکستان تعلقات سے مراد افغانستان اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات ہیں۔ اگست 1947 میں، برٹش انڈیا کی تقسیم کے نتیجے میں افغانستان کی مشرقی سرحد کے ساتھ ریاست پاکستان قائم ہوئی، اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لئے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد، افغانستان نے پاکستان کے خلاف مسلح علیحدگی پسند تحریک کی مادی طور پر حمایت کی۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان کے اندر علیحدگی پسند تحریکوں کی پہلے دن سے فوری حمایت نے دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر آنے سے روک دیا۔افغانستان پر سوویت یونین نے حملہ کیا تو امریکی سربراہی میں جہاد کا منصوبہ بنایا گیا۔ پاکستان اس منصوبے کا اہم شراکت دار تھا۔امریکہ سوویت یونین کی طاقت توڑنا چاہتا تھا۔پاکستان نے افغان عوام کی بھرپور مدد کی۔ پچاس لاکھ افغانیوں کو پناہ دی۔ان میں سے کئی لاکھ اب تک پاکستان میں موجود ہیں۔یہ جنرل ضیا الحق کی پاک افغان کنفیڈریشن سکیم سے ہم آہنگ تھا۔اپنے مقصد کی تکمیل پر امریکہ افغانستان کو بے یارو مدد گار چھوڑ کر رخصت ہوا۔بچے کچھے جہادیوں نے پاکستان اور افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنا لئے۔انہیں لڑنے کے سوا کوئی کام نہیں آتا تھا اس لئے یہ جنگجو فرقہ پرست تنظیموں، جرائم پیشہ گروہوں اور عالمی طاقتوں کے آلہ کار بن گئے۔ 1996 کے اواخر میں امارت اسلامیہ افغانستان کا ظہور ہوا اور اس نے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کو صورتحال سے نمٹنے میں مدد کی پیشکش کی، پاکستان نے آنے والے خطرات سے آگاہ کیا لیکن طالبان حکام نے کسی مشورے پر کان نہ دھرا اور آخر اپنا اقتدار اور لاکھوں افغانیوں کی زندگی قربان کی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ مین پاکستان نے اپنا کردار محدود رکھا اور ان علاقوں سے دہشت گردی ختم کرنے پر توجہ دی جو افغان سرحد سے ملحق تھے۔بیس سال کے لگ بھگ امریکہ افغانستان میں بیٹھا رہا۔افغانستان میں پاکستان دشمن قوتیں منظم ہوتی رہیں ۔افغانستان کا یہ مسئلہ بھی آخر پاکستان کی کوششون سے حل ہوا۔امریکہ افغانستان سے نکل گیا۔طالبان کو ایک بار پھر موقع ملا کہ وہ تباہ حال افغانستان کی تجارت، مالیات، بین الاقوامی تعلقات بہتر بنائیں اور عام آدمی کو تحفظ فراہم کریں۔پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات اس سلسلے میں معاون ہو سکتے تھے لیکن پاکستان میں ایسے گروہ سرگرم ہو گئے جو خود کو افغان طالبان کا حصہ قرار دیتے ہیں اور افغان طالبان بھی ان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان امن کی بجائے مسلح تصادم سے ریاست پاکستان پر دباو رکھنا چاہتی ہے۔ٹی ٹی پی کے بیان کردہ مقاصد میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور صوبہ خیبر پختونخوا میں ریاست پاکستان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنا، پورے پاکستان میں شریعت کی من چاہی تشریح کا نفاذ شامل ہیں۔اقوام متحدہ جیسے ادارے آگاہ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں کارروائیوں کے لئے ٹی ٹی پی کو افغانستان سے کمک مل رہی ہے۔ان اطلاعات کے بعد پاکستان کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ امن دشمن گروپ کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھرے۔