قارئین سے معذرت کہ کالموں کی اس سیریز میں دو دن کا وقفہ آگیا،بعض نجی مسائل ایسے تھے کہ جمعہ کو نہ لکھ سکا۔ بات پانچ جولائی ستتر کو جنرل ضیا الحق کی جانب سے بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے سے شروع ہوئی تھی، اس میں سے بعض سوال پھوٹتے گئے ، پچھلے دونوں کالموں میں ان کا جائزہ لیا ۔ آج اس اہم ترین سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا چار اور پانچ جولائی کی نصف شب کو حکومت، پی این اے مذاکراتی ٹیموں کے درمیان معاہدہ پر دستخط ہوگئے تھے ؟ کیا جنرل ضیا ء نے اس ڈر سے فوری ملٹری آپریشن کر کے ’’کُو‘‘کر ڈالا کہ اگلے روز مسئلہ ختم ہوجائے گا؟ یہ دعویٰ پیپلزپارٹی کے رہنما بھی بعد میں کرتے رہے اور پی این اے کے بعض رہنمائوں نے بھی پانچ جولائی ستتر کے چند برس بعد یہ کہنا شروع کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پانچ جولائی کے بعد کے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں پی این اے کے کسی رہنمانے ایسا دعویٰ نہیں کیا ۔ کسی رہنما نے ایسا کوئی معاہدہ بھی پیش نہیں کیا جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے ہوں۔ مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتا ب میں ایک معاہدہ کا ڈرافٹ پیش کیا، مگر وہ بارہ جون ستتر کا تھا، جس پر بعد میں مذاکرات ہوتے رہے۔ پی این اے کے بعض رہنمائوں خصوصاً نوابزادہ نصراللہ خان وغیرہ نے بعد میں یہ تاثر دیا کہ معاہدہ ایک طرح سے ہوگیا تھا، مگر جنرل ضیا نے شب خون مار دیا۔ اب اس میں دو باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ پانچ جولائی ستتر کے بعد یہ دعویٰ آنا چاہیے تھا ۔ ایسا نہیں کیا گیا۔ پی این اے کے محترم لیڈروں کو جنرل ضیا کو کہنا چاہیے تھا کہ آپ نے غلط کام کیا، ہمارا تو بھٹوصاحب کے ساتھ معاہدہ یا آل موسٹ معاہدہ ہوچکا تھا۔ ایسا کہنے کے بجائے پی این اے جنرل ضیا کے ماتحت حکومت میں شامل ہوگئی ،بعض پارٹیوں نے وزارتیں بھی قبول کر لیں۔ یہ تو جب جنرل ضیا نے الیکشن نہ کرایا اور واضح ہوگیا کہ ان کا جلد الیکشن کرانے کا ارادہ نہیں ، تب جا کر یہ وزارتوں سے الگ ہوئے اور پھر ان میں سے کچھ جماعتیں ایم آرڈی کا حصہ بن گئیں، جس میں پیپلزپارٹی بھی شامل تھی، تاہم جماعت اسلامی اور مسلم لیگ جبکہ جے یو آئی کا ایک دھڑا (درخواستی گروپ)بھی ایم آرڈی سے باہر رہا۔ دوسرا ایسا متفقہ معاہدہ کہیں پر، کسی کتاب میں پیش نہیں کیا گیا۔ تیسراپی این اے مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ منسلک وکلا میں سے ایک معروف قانون دان کی گواہی بھی اس متفقہ معاہدے والی بات کے خلاف گئی ۔ پروفیسر غفور احمد نے ان دنوں کے حوالے سے کتاب لکھی’’اور مارشل لا آ گیا‘‘ ۔ لاہور میں کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اس میں پروفیسر صاحب کے علاوہ نوابزادہ نصراللہ اور دیگر معروف لیڈران بھی شامل تھے۔ اس تقریب کی روداد مجھے ہمارے بہت سینئر صحافی نے سنائی۔ لاہور کے پرانے رپورٹر اور سینئر صحافی حضرات اس بات کی تصدیق کریں گے۔ بتایا گیا کہ اس تقریب کے ایک مقرر عامر رضا خان بھی تھے۔ وہی عامر رضا خان جو بعد میں جسٹس بنے اور پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا۔قانونی حلقوں میں وہ ایک غیر معمولی دیانت دار، بااصول اور کھری بات کہنے والے شخص کی شہرت رکھتے رہے۔ اس تقریب میں عامر رضا خان نے کھری کھری باتیں سناکر پی این اے کے سابق لیڈروں کو قدرے پریشان کر دیا۔ عامر رضا خان کا کہنا تھا کہ میں اس وکلا کمیٹی کا رکن تھا جس کا کام پی این اے کی مذاکراتی کمیٹی کی قانونی معاونت کرنا تھا۔یاد رہے کہ اس قانونی کمیٹی میں محمود علی قصوری، خالد اسحاق ، عامر رضا خان اور احد یوسف شامل تھے۔ پی این اے کی مذاکراتی کمیٹی مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ اور پروفیسر غفور احمد پر مشتمل تھی۔ عامر رضا خان کے بقول مذاکرات میں جو بھی پیش رفت ہوئی، اس کی ڈرافٹنگ ہمیں دکھائی جاتی اور ہم قانونی پہلوئوں سے اس کا جائزہ لیتے اور اس پر ماہرانہ رائے دیتے۔ عامر رضا خان نے برملا کہا کہ چار جولائی کی شام بھی میں وہیں پر موجود تھا اور ایسا کوئی معاہدہ میرے سامنے نہیں آیا جس پر اتفاق رائے ہو گیا ہو۔ اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوتا تو لازمی طور پر معاونت کرنے والے قانونی ماہرین سے اس پر رائے لی جاتی، تب ہی اس پر حتمی دستخط ہوتے۔ عامر رضاخان نے اپنے مخصوص بے باکانہ انداز میں سٹیج پر بیٹھے عمائدین سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم قوم سے کیوں جھوٹ بول رہے ہیں، جو بات سچ اور درست ہے، وہی ان کے سامنے رکھیں کہ کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا تھا اور اس کی ذمہ داری بھٹو حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ پروفیسر غفوراحمد نے اپنی کتاب میں یہ تفصیلات لکھتے ہوئے ایک دلچسپ انکشاف یہ کیا کہ پی این اے کے بعض لیڈروں کو بھٹو صاحب کی نیت پر شک تھا ۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ بھٹو صاحب اپوزیشن کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے نفاذ میں مخلص ہوں گے۔ انہوں نے مفتی محمود کی زبانی سنایا ہوا ایک واقعہ لکھا ۔ کتاب کے صفحہ 240 پر وہ لکھتے ہیںکہ مفتی محمود نے مجھے بتایا کہ ایک دن سردار شیرباز مزاری رات گئے ان کے پاس آئے اور کہا کہ کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ مفتی صاحب نے کہا فرمائیں۔ سردار مزاری نے کہا یہاں اس کمرے میں ایسے آلات ہوسکتے ہیں جن سے ریکارڈنگ ہوسکے۔ وہ مفتی صاحب کو ساتھ لے کر باہر گاڑی تک گئے اور اس میں بیٹھ گئے، وہاں بیگم نسیم ولی خان بھی پہلے سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ راستے میں بیگم نسیم ولی نے مفتی صاحب سے کہا کہ آپ بھٹو صاحب سے مذاکرات نہ کریں اور مارشل لا لگنے دیں، مارشل لا کا نفاذ ہی اس بات کی ضمانت ہوگا کہ نوے دنوں کے اندر آزادانہ انتخابات ہوسکیں، کیونکہ بھٹو صاحب پر اس حوالے سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ مفتی محمود نے بیگم نسیم ولی سے پوچھا کیا وہ اس بارے میں ولی خان کی رائے دریافت کر چکی ہیں؟بیگم نسیم ولی نے کہا، ولی خان کی بھی یہی رائے ہے۔ مفتی محمود نے انہیں کہا کہ وہ ان کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس سے پہلے اصغر خان بھی ان خیالات کا اظہار کر چکے تھے کہ ان کی دانست میں مارشل لا کا نفاذ ہی انتخابات کے انعقاد کے لئے بہتر تھا۔ دراصل تین جولائی کو حکومت، پی این اے میں ایک لحاظ سے اتفاق رائے ہوگیا تھا، تاہم جب مذاکراتی کمیٹی نے وہ معاہدہ پی این اے کی کونسل کے سامنے پیش کیا تو وہاں پر شدید تنقید ہوئی اور اس میں بعض ترامیم (گو معمولی نوعیت کی)تجویز ہوئیں۔ جب یہ ترامیم پی این اے کی کمیٹی نے بھٹو حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کو دیں تو اس پر اس وقت تو ری ایکشن نہیں ہوا بلکہ پروفیسر غفور احمد کے بقول بھٹو صاحب کے متحمل رویے سے مجھے خیال ہوا کہ وہ خود بھی حالات کی نزاکت سمجھتے ہیں اور حکمت کے ساتھ نئی صورتحال پر قابو پا لیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں،تین جولائی کو شام گئے کابینہ کا اجلاس ہوا اور چار جولائی کوڈیڈھ بجے علی الصبح بھٹو صاحب نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور ان کا رویہ جارحانہ تھا۔ ا ن کا کہنا تھا کہ میرے ساتھیوں نے میرے ساتھ بڑے شدومد سے اختلاف رائے کیا ہے ، اگر پی این اے کہتا ہے کہ اس کی بعض مشکلات ہیں تو میری بھی بعض مشکلات ہیں۔بھٹو کی پریس کانفرنس سے مذاکرات کے تعطل کا تاثر ملا۔ پروفیسر غفور احمد کے بقول انہوں نے بعد میں غلام مصطفی جتوئی سے پوچھا کہ بھٹو صاحب کے اس رویے کی وجہ کیا تھی؟ جتوئی کے بقول کابینہ کے بیشتر وزرا مصالحت کے حق میں تھے ، البتہ حفیظ پیرزادہ اور بعض دیگر اس کے مخالف تھے، ان کی رائے تھی کہ ہمیں سخت موقف اپنانا چاہیے ، اس سے اتحاد کی تحریک دم توڑ جائے گی ، ورنہ نرم رویہ اختیار کرنے سے وہ مضبوط ہوں گے۔ پروفیسر غفور احمد کے مطابق:’’ بھٹو صاحب جیسا تجربہ کار سیاستدان اپنے ساتھیوں کے دلوں میں چھپے عزائم بھانپنے میں ناکام رہااور ان کی رائے سے متاثر ہو کر اپنی زندگی کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کر ڈالی۔ ہمارے انتباہ اور حالات کی نزاکت نظرانداز کر کے بھٹو نے اپنے مشیروں اور ساتھیوں کے کہنے پر مذاکرات میں تعطل کا تاثر دے کر خود ہی ایک نئے مارشل لا کی راہ ہموار کر دی۔ بھٹو کے اس فیصلے کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کو اپنا بہی خواہ سمجھ کرانہوں نے ایسے آڑے وقت میں مشورے کے لئے طلب کیا تھااور انہوں نے جانتے بوجھتے ایسا مشورہ دیا جس سے ملک ایک شدید تر بحران کا شکار ہوگیا۔‘‘ پروفیسر غفور نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ جب پانچ جولائی کی صبح فوجی دستوں نے ان سمیت پی این اے اور پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کو اپنی تحویل میں لے کر ایک عمارت میں منتقل کیا جو پولیس بیرکس معلوم ہو رہی تھیں۔ وہاں پر پی پی رہنمائوں سے علیک سلیک ہوئی تو حفیظ پیرزادہ نے انہیں کہا، حالات نازک ہیں، اب ہمیں جلد کسی مفاہمت پر پہنچ جانا چاہیے۔ پروفیسر غفور کے بقول حفیظ پیرزادہ کو یہ خیال اس وقت آیا جب چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں۔ (اور مارشل لا آ گیا، صفحہ 254)