ملائیشیا جوکہ کبھی ملائیا (Malaya) کہلاتا تھا اس ملک نے 1957ء میں آزادی حاصل کی۔ پاکستان ملائیشیا سے 10 سال پہلے یعنی 1947ء میں آزاد ہوا۔ ان دونوں ملکوں میں ایک بات مشترک ہے کہ 1981ء میں ملائیشیا میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اس ملک کے وزیراعظم بنے اور پھر 1981ء ہی میں پاکستان میں میاں نوازشریف بغیر کسی سیاسی جدوجہد کے جنرل ضیاء الحق کی چھتری تلے صوبہ پنجاب کے وزیر بنے اور پھر وزیراعلیٰ بن گئے۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہائوس آف شریف پر قدرت ایسی مہربان ہوئی کہ میاں نوازشریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے اور ان کے بھائی مسلسل وزیراعلیٰ بنتے آ رہے ہیں۔ اس خاندان کے کئی افراد برابر اقتدار کا حصہ بن گئے۔ میاں صاحب کے سمدھی وزیر خزانہ، داماد قومی اسمبلی کا ممبر اور پھر میاں شہبازشریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی ممبر قومی اسمبلی بن کر پنجاب کے ڈپٹی وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ابھی تک تشریف نہیں لائیں جبکہ حکومت اپنے آخری دن پورے کرنے والی ہے۔ ہائوس آف شریف کا اقتدار کم و بیش 30 سالوں پر محیط ہے۔ دوسری جانب ملائیشیا میں 1981ء سے لکر 2003ء تک ایم بی بی ایس ڈاکٹر مہاتیر محمد اقتدار میں رہے۔ ان کے اس اقتدار کے دورانیے میں قدرت ملائیشیا پر مہربان ہوئی اور ملائیشیا کی قسمت بدل گئی۔ ملائیشیا ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ملک بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس عرصے کے دوران 1981ء ہی میں پاکستان سے قدرت کی ناراضی کا سفر شروع ہوا جوکہ اس مملکت کی جڑیں کھوکھلی کر گیا۔ پاکستان میں ایک ایسا شخص وزیر بن کر پاکستانی سیاست میں آیا ہو کہ اپنے اقتدار اور اپنے خاندانی کاروبار کو فروغ دینے کے لیے قانون کی عملداری کو روندتا چلا گیا جیسے جیسے اس خاندان کے اقتدار کا سورج بلند ہوا پاکستان تنزلی کی جانب چل پڑا۔ دوسری طرف دیکھیں کہ ملائیشیا میں عوام خوشحال ہو گئے۔ ملائیشیا کی معیشت مضبوط ہو گئی مگر پاکستان کی معیشت تباہ ہو گئی اور پورا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ قدرت کا نظام دیکھئے کہ 92 (بانوے) سال کے ڈاکٹر مہاتیر محمد ایک طویل عرصے کے بعد دوبارہ ملائیشیا کے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد کر کے ملائیشیا کو دنیا میں منفرد مقام دلوانے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد اپنی عمر کے اس حصے میں دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں۔ ملائیشیا کے عوام نے جب دیکھا کہ ملک میں ایک بار پھر کرپشن جڑیں پکڑ رہی ہیں تو انہوں نے پھر سے ان کو اپنا وزیراعظم چن لیا کہ دوبارہ اس ملک میں کرپشن کا زہر نہ پھیلنے پائے۔ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نجیب رزاق اول درجے کے کرپٹ حکمران نکلے۔ ملائیشیا کے ایک انویسٹمنٹ فنڈ سے سات سو ملین ڈالر غائب ہوئے اور پھر یہ نجیب رزاق کے ذاتی اکائونٹ میں پائے گئے۔ جب اس بارے ملائیشیا میں تحقیقات کا آغاز ہوا تو نجیب رزاق سعودی عرب سے ایک شہزادے کا خط لے آئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح میاں نوازشریف قطری شہزادے کا خط لے آئے تھے۔ اب دونوں سابق وزرائے اعظم میں یہ خط کی کہانی بھی مشترک ہے۔ دونوں جانب شاہی خاندانوں کے شہزادے ان کی مدد کو موجود ہیں۔ بہرحال اب دعا کرنی چاہیے کہ پاکستان میں بھی کوئی ڈاکٹر مہاتیر محمد پیدا ہو جائے جو آ کر پاکستان کی تقدیر بدل دے۔ چند سال قبل لندن میں ایک سفارتی تقریب میں ڈاکٹر مہاتیر محمد موجود تھے۔ اس تقریب میں دیگر سفارتی نمائندوں اور برطانوی صحافیوں کی موجودگی میں ان سے بات کرنے کا موقع ملا تھا۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے دورہ پاکستان کا تذکرہ کرتے ہوئے خاص طور پر عمران خان کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اگر عمران خان کو پاکستان میں حکومتی سطح پر کام کرنے کا موقع ملا تو وہ یقینا پاکستان میں انقلابی تبدیلیاں لا سکیں گے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد بتا رہے تھے کہ وہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے دور میں عمران خان کی خصوصی دعوت پر پاکستان گئے تھے اور وہاں کرپشن کے خاتمے اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے موضوع پر سیمینار میں بھی شریک ہوئے تھے۔ یقینا عمران خان ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی تقدیر بدلنے کا پروگرام رکھتے ہوں گے۔ ماضی میں 30 سال تک جن حکمرانوں نے پاکستان میں لوٹ مار کی ہے۔ اب ان حکمرانوں کے تسلط سے نجات دلانے کے لیے عملی منصوبہ بندی بھی ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں پاکستان کی عدلیہ اور افواج پاکستان کی مشترکہ حکمت عملی ناگزیر ہو چکی ہے۔ پاکستان کو اگر ترقی کرنی ہے اور کرپشن سے نجات حاصل کرنی ہے تو پھر نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ نئی سوچ سے لیس ہونا ہوگا، طرز حکمرانی کو ہرحال میں بدلنا ہوگا۔ ہمارا موجودہ حکمرانی کا طریقہ کار فرسودہ اور کھوکھلا ہو چکا ہے۔ خاندانی اجارہ داریوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ عوام میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے لیکن افسوس کہ ان باصلاحیت افراد کو موقع ہی فراہم نہیں کیا جاتا۔ عام لوگوں میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے برابر مواقع فراہم کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں بھی برطانیہ کی طرح صادق خان، سعیدہ وارثی، ساجد جاوید پیدا ہو سکتے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم کے بعد لندن کے میئر کا عہدہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اس عہدے پر صادق خان اور وزیر داخلہ کے اہم عہدے پر ساجد جاوید کام کر رہے ہیں۔ یہاں یہ کیوں ہیں کیونکہ یہ باصلاحیت بھی ہیں اور کرپٹ نہیں، یہ جائیدادیں اور اثاثے نہیں بناتے۔ ایک ایک پائی کا حساب دیتے ہیں۔ اپنے ذرائع آمدنی بتاتے ہیں۔ اپنے اثاثے عام کردیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ تعلیم کا حصول آسان بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں ترقی کا انحصار تعلیم پر ہی ہوا کرتا ہے۔ عمران خان تعلیم کے بارے میں اپنا ہنگامی پروگرام بنا رہے ہیں۔ اس ضمن میں قومی انتخابات کے بعد بننے والی جو بھی حکومت اقتدار میں آتی ہے وہ کرپشن کے خلاف تو آپریشن تو ہرحال میں جاری رکھے گی مگر تعلیم کے بارے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم عام بھی ہو اور تعلیم کا حصول بھی آسان ہو۔ نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مار کا بازار بھی بند ہو جوکہ ایک کاروبار بن چکا ہے۔ قومی انتخابات کسی بھی صورت میں ٹلنے نہیں چاہئیں اور پھر نہ ان کے شیڈول میں تاخیر ہونی چاہیے۔ مقررہ وقت پر انتخابات ہوں اور احتساب کا عمل بھی اپنی جگہ جاری رہے۔ پاکستان کی قسمت نے بدلنا ہے تو پھر عوام کو ملائیشیا جیسے نتائج اس سرزمین پر بھی لانے ہوں گے۔ عدلیہ اور افواج پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا عملی ثبوت دیا جانا چاہیے۔ فوج نے اپنا بھرپور کام کر دکھایا ہے۔ پاکستان کے تمام قبائلی علاقہ جات آج پاکستان میں امن کا گہوارہ بن رہے ہیں۔ طالبان کو ان علاقوں میں شکست دی جا چکی ہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کردی گئی ہیں۔ اب سیاسی عناصر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دونوں قومی اداروں کے ساتھ مل کر ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کریں۔ چند ماہ بعد قومی انتخاب میں قوم کو موقع مل رہا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس نادر موقع کو ضائع نہ کریں، اب ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری سے جتنی جلد نجات حاصل کرلی جائے یہ قومی مفاد میں ہے۔ میاں نوازشرف کا افواج پاکستان اور عدلیہ کے بارے میں رویہ کسی طور پر بھی قومی مفاد میں نہیں ہے۔ خاص طور پر میاں نوازشریف کا تازہ ’’ڈان‘‘ اخبار کو دیا گیا انٹرویو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہائوس آف شریف اپنی دولت بچانے کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کو بھی دائو پر لگا رہا ہے۔ ذرا سوچئے کہ امریکہ، اسرائیل اوربھارت نے پاکستان کو اندرونی طور پر تباہ کرنے کی جو منصوبے بنائے ہوئے ہیں، ان منصوبوں پر ہماری اپنی صفوں میں وہ کون سے ہاتھ ہیں جوکہ ان کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں؟